پھر کہیں انقلاب آے گا
ابرار الحق
سر جلائیں گے روشنی ہوگی
اس اجالے میں فیصلے ہوںگے
روشنائی بھی خون کی ہوگی
اور وہ فاقہ کش قلم جس میں
جتنی چیخوں کی داستانیں ہیں
انکو لکھنے کی آرزو ہوگی
نہ ہی لمحہ قرار کا ہوگا
نہ ہی رستہ فرار کا ہوگا
وہ عدالت غریب کی ہوگی
جان اٹکی یزید کی ہوگی
اور پھر ایک فقیر کا بچہ
مسندوں پر بٹھایا جائے گا
اور ترازو کے دونوں پلڑوں میں
سرخ لمحوں کو تولہ جائے گا
سابقہ حاکمین حاضر ہوں
نام اور ولد بولا جائے گا
جو یتیموں کی طرف اٹھےتھے
ایسے ہاتھوں کو توڑ ڈالیں گے
اور جس نے روندی غریب کی عصمت
اسکی گردن مروڑ ڈالیں گے
جس نے بیچی ہے قلم کی طاقت
جس نے اپنا ضمیر بیچا ہے
جو دکانیں سجائے بیٹھے ہیں
سچ سے دامن چھڑائے بیٹھے ہیں
جس نے بیچا عذاب بیچا ہے
مفلسوں کو سراب بیچا ہے
دین کو بے حساب بیچا ہے
کچھ نے روٹی کا خواب بیچا ہے
اور کیا کہیں ہم کہ قوم نے خود کو
کس طرح بار بار بیچا ہے
فیض و اقبال کا پڑوسی ہوں
اک تڑپ میرے خون میں بھی ہے
آنکھ میں سلسلہ ہے خوابوں کا
اک مہک میرے چارسو بھی ہے
جھونپڑی کے نصیب بدلیں گے
پھر کہیں انقلاب آئے گا
بیٹھ رھنے سے کچھ نہیں ہو گا
ایک دن انقلاب آئے گا