Pages

ابرار الحق کی شاعری





پھر کہیں انقلاب آے گا


ابرار الحق


سر جلائیں گے روشنی ہوگی


اس اجالے میں فیصلے ہوںگے


روشنائی بھی خون کی ہوگی


اور وہ فاقہ کش قلم جس میں


جتنی چیخوں کی داستانیں ہیں


انکو لکھنے کی آرزو ہوگی


نہ ہی لمحہ قرار کا ہوگا


نہ ہی رستہ فرار کا ہوگا


وہ عدالت غریب کی ہوگی


جان اٹکی یزید کی ہوگی


اور پھر ایک فقیر کا بچہ


مسندوں پر بٹھایا جائے گا


اور ترازو کے دونوں پلڑوں میں


سرخ لمحوں کو تولہ جائے گا


سابقہ حاکمین حاضر ہوں


نام اور ولد بولا جائے گا


جو یتیموں کی طرف اٹھےتھے


ایسے ہاتھوں کو توڑ ڈالیں گے


اور جس نے روندی غریب کی عصمت


اسکی گردن مروڑ ڈالیں گے


جس نے بیچی ہے قلم کی طاقت


جس نے اپنا ضمیر بیچا ہے


جو دکانیں سجائے بیٹھے ہیں


سچ سے دامن چھڑائے بیٹھے ہیں


جس نے بیچا عذاب بیچا ہے


مفلسوں کو سراب بیچا ہے


دین کو بے حساب بیچا ہے


کچھ نے روٹی کا خواب بیچا ہے


اور کیا کہیں ہم کہ قوم نے خود کو


کس طرح بار بار بیچا ہے


فیض و اقبال کا پڑوسی ہوں


اک تڑپ میرے خون میں بھی ہے


آنکھ میں سلسلہ ہے خوابوں کا


اک مہک میرے چارسو بھی ہے


جھونپڑی کے نصیب بدلیں گے


پھر کہیں انقلاب آئے گا


بیٹھ رھنے سے کچھ نہیں ہو گا


ایک دن انقلاب آئے گا


یہ غازی ، یہ تیرے پراسرار بندے



یہ غازی ، یہ تیرے پراسرار بندے

جنھیں تو نے بخشا ہے ذوق خدائی

دو نیم ان کی ٹھوکر سے صحرا و دریا

سمٹ کر پہاڑ ان کی ہیبت سے رائی

دو عالم سے کرتی ہے بیگانہ دل کو

عجب چیز ہے لذت آشنائی

شہادت ہے مطلوب و مقصود مومن

نہ مال غنیمت نہ کشور کشائی

خیاباں میں ہے منتظر لالہ کب سے

قبا چاہیے اس کو خون عرب سے

کیا تو نے صحرا نشینوں کو یکتا

خبر میں ، نظر میں ، اذان سحر میں

طلب جس کی صدیوں سے تھی زندگی کو

وہ سوز اس نے پایا انھی کے جگر میں

کشاد در دل سمجھتے ہیں اس کو

ہلاکت نہیں موت ان کی نظر میں

دل مرد مومن میں پھر زندہ کر دے

وہ بجلی کہ تھی نعرۂ لاتذر ، میں

عزائم کو سینوں میں بیدار کردے

نگاہ مسلماں کو تلوار کردے