Subscribe to:
Post Comments (Atom)
افسوس اس قوم پر جس کی رہبر لومڑی ہو جس کا فلسفی مداری ہو جس کا فن پیوندکاری اور نقالی ہو افسوس اس قوم پر جو ہر نئے حکمران کا استقبال ڈھول تاشے سے کرےاور رخصت گالم گلوچ سے اور وہی ڈھول تاشے ایک نئے حاکم کے لیے بجانا شروع کر دے. افسوس اس قوم پر جس کے مدبر برسوں کے بوجھ تک دب گئے ہوں اور جس کے سورما ابھی تک پنگھوڑے میں ہوں. افسوس اس قوم پر جس کے رہنما جھوٹے ہوں اور دانا خاموش. افسوس، صد افسوس ان لوگوں کی قوم پر جو اپنے حقوق کو غصب ہونے دیتی ہے. (خلیل جبران)
جانے کب ہونگے کم
اس دنیا کے غم
جینے والوں پہ سدا
بے جرم و خطا
ہوتےربےہیں ستم
جانے کب ہونگے کم
اس دنیا کے غم
کیا جس نے گلہ ملی اور سزا
کئی بار ہو ا یہاں خونِ وفاء
بس یہی ہے سلا
دل والوں نے دیا
یہاں دار پہ دم
جانے کب ہونگے کم
اس دنیا کے غم
کوئی آس نہیں احساس نہیں
دریا بھی ملا مجھے پیاس نہیں
اک ہم ہی نہیں
جسے دیکھوں یہاں
وہی آنکھ ہے نم
جانے کب ہونگے کم اس دنیا کے غم