میری پہچان نمازیں ہیں نہ تکبیریں ہیں
آج کل میرا تعارف میری تقصیریں ہیں
آنکھ کھُلتے ہی اُجڑ جاتے ہیں منظر سارے
خواب لاکھوں ہیں، مگر ایک سی تعبیریں ہیں
پڑھنے والو! کوئی مفہوم تو ہو گا ان کا
صفحۂ ابر پہ کوندوں کی جو تحریریں ہیں
ہم پذیرائی پہ ماموُر ہیں، اے خواجہِ شہ
ہاتھ میں پھوُل ہیں اور پاؤں میں زنجیریں ہیں
سب خد و خال خدا کے ہیں مصّور جیسے
یہ جو انسان نظر آتے ہیں، تصویریں ہیں
0 comments:
Post a Comment