
جو 1934ء میں لکھی تھی۔
افسوس اس قوم پر جس کی رہبر لومڑی ہو
جس کا فلسفی مداری ہو
جس کا فن پیوندکاری اور نقالی ہو
......افسوس اس قوم پر جو ہر نئے حکمران کا استقبال
ڈھول تاشے سے کرےاور رخصت گالم گلوچ سے
اور وہی ڈھول تاشے ایک نئے حاکم کے لیے بجانا شروع کر دے
افسوس اس قوم پر جس کی رہبر لومڑی ہو
جس کا فلسفی مداری ہو
جس کا فن پیوندکاری اور نقالی ہو
......افسوس اس قوم پر جو ہر نئے حکمران کا استقبال
ڈھول تاشے سے کرےاور رخصت گالم گلوچ سے
اور وہی ڈھول تاشے ایک نئے حاکم کے لیے بجانا شروع کر دے
0 comments:
Post a Comment