
اس وقت ملک کے طول و عرض میں سیلاب زدگان کو وطن کارڈ تقسیم کیے جا رہے ہیں۔لوگ اتنے بے صبرے ہیں کہ بار بار لائن توڑ کر دروازے سے اندر گھسنے کی کوشش کرتے ہیں۔پولیس کو مجبوراً لاٹھی چارج کرنا پڑتا ہے۔ کئی لوگ زخمی ہوتے ہیں۔بھگدڑ میں کچلے جاتے ہیں۔ لیکن اگلے روز پھر مزید بے صبرے پن کے ساتھ نادرا مراکز کے گیٹ پر جمع ہوجاتے ہیں۔ جنہیں اتنے کشٹ کے بعد وطن کارڈ ہاتھ آجاتا ہے ۔ان کے لیے مشکلات کا دوسرا مرحلہ شروع ہوجاتا ہے۔ یہ کارڈ وصولی کے اڑتالیس گھنٹے بعد کارآمد (ایکٹی ویٹ)ہوتا ہے۔اس کے ذریعے پیسے صرف بینک کے اے ٹی ایم ( آٹومیٹک ٹلر مشین) سے ہی نکلوائے جاسکتے ہیں۔ یہ اے ٹی ایم صرف بڑے شہروں اور قصبات کی بینک شاخوں میں نصب ہیں۔انہیں استعمال کرنے کے لیے بنیادی خواندگی اور حاظر دماغی کی ضرورت ہے۔ تاکہ تیزی سے بدلتی سکرین پر دیے گئے متعدد آپشنز پر درست انگلی پڑے۔ورنہ نئے سرے سے پوری مشق دہرانی پڑتی ہے۔ وہ لاکھوں دیہاتی جن کا گھربار، مال مویشی سیلاب میں ختم ہوچکے ہیں۔ جو صرف کیش کی صورت میں لین دین کے عادی ہیں۔جن میں سے بیشتر نے کبھی کسی بینک میں اکاؤنٹ نہیں کھلوایا۔کبھی چیک بک استعمال نہیں کی۔اپنے گاؤں سے سو سو کلومیٹر دور تک اے ٹی ایم مشین نہیں دیکھی۔ان سے توقع کی جارہی ہے کہ وہ اپنے گاؤں سے نکل کر بس میں بیٹھ کر کسی ایسے قصبے تک پہنچیں جہاں اے ٹی ایم مشین ہو۔وہاں طویل لائن میں لگیں اور الیکٹرونک بینکنگ کے عادی کسی کھاتے دار کی طرح اے ٹی ایم مشین آپریٹ کرکے مطلوبہ رقم حاصل کرلیں۔اور وہ بھی ایسے حالات میں جب پیچھے سینکڑوں دیگر بے صبروں کا ہجوم ہو۔
جو متاثرین یہ مراحل طے کرلیتے ہیں کیا وہ رقم حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔شائد نہیں ۔۔۔ زیادہ تر اے ٹی ایم مشینیں یا تو خراب ہیں یا پھر ان میں کیش نہیں ہوتا۔بینک والے کہتے ہیں کہ ان مشینوں کو بے نظیر انکم سپورٹ کریڈٹ کارڈز استعمال کرنے والوں نے خراب کیا ہے۔ کئی مقامات پر یہ بھی ہوا ہے کہ غلط بٹن بار بار دبانے کے سبب اے ٹی ایم نے کارڈ ضبط کرلیا اور جس کا کارڈ ضبط ہوا وہ اپنے جذبات ضبط نہ کرسکا اور کارڈ واپس لینے کے لیے اس نے پتلا سریا، پیچ کس یا لکڑی اے ٹی ایم کے خانے میں گھسا دی یا پتھر مار کر سکرین ہی توڑ دی اور بکتا جھکتا یا روتا ہوا چلا گیا۔
چنانچہ اب ایک نیا بزنس شروع ہوگیا ہے۔الیکٹرونک بینکنگ جاننے والا کوئی شخص متاثرین سے بیس ہزار روپے کا کارڈ پندرہ سے اٹھارہ ہزار روپے میں خرید لیتا ہے اور متاثر خدا کا شکر ادا کرتا ہے کہ کم ازکم اسے پندرہ ہزار تو ملے۔ حکومت کہتی ہے کہ اس نے کیش بذریعہ اے ٹی ایم کی پالیسی اس لیے بنائی ہے تاکہ رقم کا کنٹرول متاثر کے ہاتھ میں رہے اور حکومتی اداروں کو بھی پتہ چلتا رہے کہ رقم مستحق تک ہی پہنچ رہی ہے۔
تو پھر دادو کی تحصیل میہڑ کے گوٹھ امبر کے حسین کھوسو نے خودکشی کیوں کرلی؟
نثار میں تری گلیوں پے اے وطن ، کہ جہاں
چلی ہے رسم ، کہ کوئی نہ سر اٹھا کے چلے
جو لے کے نکلے ’وطن کارڈ‘ کوئی اہلِ وطن
نظر چرا کے چلے، جسم و جاں بچا کے چلے
http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2010/10/101017_baat_se_baat.shtml
0 comments:
Post a Comment