Pages


خود کو مٹی میں رولتے ہوئے لوگ
خود کو مٹی میں رولتے ہوئے لوگ
صاف پانی کو مانگتے ہوئے لوگ

گھر کے ملبے پہ بیٹھے رو رہے ہیں
اپنے خوابوں کو ڈھونڈتے ہوئے لوگ

جو بچا لیں، وہی غنیمت ہے
ساز و ساماں گھسیٹتے ہوئے لوگ

کیا ہو پائیں گے ہم بحال کبھی؟
ایک اِک سے یہ پوچھتے ہوئے لوگ

کس طرح خود کو یہ سمیٹیں گے
لمحہ در لمحہ ٹُوٹتے ہوئے لوگ

بے بسی کی فضا میں جی رہے ہیں
اپنی خُوشیوں کا مارتے ہوئے لوگ

کچھ بتاؤ! کہاں کریں تدفین؟
حکمرانوں سے پوچھتے ہوئے لوگ

کتنے معصوم، سادہ دل ہیں یہ
جُھوٹے وعدوں کو مانتے ہوئے لوگ

اپنے گھر، اپنے خواب چھوڑ آئے
زندگی کو پُکارتے ہوئے لوگ

0 comments: