Pages

ﻣﺎﮞ ! ﺩﻋﺎ ﮐﺮﻧﺎ


ﻣﺎﮞ !
ﺩﻋﺎ ﮐﺮﻧﺎ
ﮐﮧ ﮐﺒﮭﯽ ﺗﯿﺮﺍ ﯾﮧ ﺑﯿﭩﺎ
ﺧﺎﮐﯽ ﻭﺭﺩﯼ ﭘﮩﻨﮯ

ﺳﯿﻨﮯ ﭘﮧ ﺗﻤﻐﮯ ﺳﺠﺎﺀﮮ
ﻣﺠﺎﮨﺪﻭﮞ ﮐﺎ ﺳﺎ ﻧﻮﺭ ﻟﯿﮯ
ﺗﯿﺮﮮ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﻓﺨﺮ ﺳﮯ ﮐﮭﮍﺍ ﮨﻮ،
ﺍﻭﺭ ﻣﯿﺮﯼ ﻣﺎﮞ
ﻣﯿﺮﯼ ﻣﺎﮞ ﯾﮧ ﺳﻦ ﮐﺮ
ﮨﻨﺲ ﺩﯾﺎ ﮐﺮﺗﯽ ﺗﮭﯽ ـ ـ ـ
ﮐﺒﮭﯽ ﺟﻮ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﻣﯿﺮﯼ ﻣﺎﮞ ﻣﻠﮯ ﺗﻮ ﺍْﺱ
ﺳﮯ ﮐﮩﻨﺎ
ﻭﮦ ﺍﺏ ﺑﮭﯽ ﮨﻨﺴﺘﯽ ﺭﮨﺎ ﮐﺮﮮ،
ﮐﮧ ﺷﮩﯿﺪﻭﮞ ﮐﯽ ﻣﺎﺋﯿﮟ
ﺭﻭﯾﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﺗﯿﮟ۔ ۔ ۔ ۔
ﻣﯿﮟ ﺍﮐﺜﺮ ﻣﺎﮞ ﺳﮯ ﮐﮩﺘﺎ ﺗﮭﺎ
ﺍْﺱ ﺩﻥ ﮐﺎ ﺍﻧﺘﻈﺎﺭ ﮐﺮﻧﺎ،
ﺟﺐ ﺩﮬﺮﺗﯽ ﺗﯿﺮﮮ ﺑﯿﭩﮯ ﮐﻮ ﭘﮑﺎﺭﮮ ﮔﯽ،
ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﻋﻈﯿﻢ ﭘﺮﺑﺘﻮﮞ ﮐﮯ ﺩﺭﻣﯿﺎﻥ ﺑﮩﺘﮯ
ﺍْﺷﻮ ﮐﮯ ﺩﺭﯾﺎ ﮐﺎ ﻧﯿﻼ ﭘﺎﻧﯽ،
ﺍﻭﺭ ﺳﻮﺍﺕ ﮐﯽ ﮔﻠﯿﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺑﺎﺭﺵ ﮐﮯ
ﻗﻄﺮﻭﮞ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﮔﺮﺗﯽ
ﺭﻭﺷﻨﯽ ﮐﯽ ﮐﺮﻧﯿﮟ ﭘﮑﺎﺭﯾﮟ ﮔﯽ۔ ۔ ۔
ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﺍﺱ ﺩﻥ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ،
ﻣﯿﺮﺍ ﺍﻧﺘﻈﺎﺭ ﻧﮧ ﮐﺮﻧﺎ،
ﮐﮧ ﺧﺎﮐﯽ ﻭﺭﺩﯼ ﻣﯿﮟ ﺟﺎﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﺍﮐﺜﺮ،
ﺳﺒﺰ ﮨﻼﻟﯽ ﻣﯿﮟ ﻟﻮﭦ ﮐﺮ ﺁﺗﮯ ﮨﯿﮟ۔ ۔ ۔
ﻣﮕﺮ ﻣﯿﺮﯼ ﻣﺎﮞ۔ ۔ ۔
ﺁﺝ ﺑﮭﯽ ﻣﯿﺮﺍ ﺍﻧﺘﻈﺎﺭ ﮐﺮﺗﯽ ﮨﮯ،
ﮔﮭﺮ ﮐﯽ ﭼﻮﮐﮭﭧ ﭘﮧ ﺑﯿﭩﮭﯽ ﻟﻤﺤﮯ ﮔﻨﺘﯽ
ﺭﮨﺘﯽ ﮨﮯ،
ﻣﯿﺮﮮ ﻟﯿﮯ ﮐﮭﺎﻧﺎ ﮈﮬﮏ ﺭﮐﮭﺘﯽ ﮨﮯ۔ ۔ ۔
ﮐﺒﮭﯽ ﺟﻮ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﻣﯿﺮﯼ ﻣﺎﮞ ﻣﻠﮯ
ﺗﻮ ﺍْﺱ ﺳﮯ ﮐﮩﻨﺎ،
ﻭﮦ ﮔﮭﺮ ﮐﯽ ﭼﻮﮐﮭﭧ ﭘﮧ ﺑﯿﭩﮫ ﮐﺮ
ﻣﯿﺮﺍ ﺍﻧﺘﻈﺎﺭ ﻧﮧ ﮐﯿﺎ ﮐﺮﮮ۔ ۔ ۔ ۔
ﺧﺎﮐﯽ ﻭﺭﺩﯼ ﻣﯿﮟ ﺟﺎﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ
ﻟﻮﭦ ﮐﺮ ﮐﺐ ﺁﺗﮯ ﮨﯿﮟ؟
ﻣﯿﮟ ﺍﮐﺜﺮ ﻣﺎﮞ ﺳﮯ ﮐﮩﺘﺎ ﺗﮭﺎ
ﯾﺎﺩ ﺭﮐﮭﻨﺎ !
ﺍﺱ ﺩﮬﺮﺗﯽ ﮐﮯ ﺳﯿﻨﮯ ﭘﮧ
ﻣﯿﺮﯼ ﺑﮩﻨﻮﮞ ﮐﮯ ﺁﻧﺴﻮ ﮔﺮﮮ ﺗﮭﮯ،
ﻣﺠﮭﮯ ﻭﮦ ﺁﻧﺴﻮ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﻟﻮﭨﺎﻧﮯ ﮬﯿﮟ۔ ۔ ۔
ﻣﯿﺮﮮ ﺳﺎﺗﮭﯿﻮﮞ ﮐﮯ ﺳﺮ ﮐﺎﭨﮯ ﮔﺌﮯ ﺗﮭﮯ
ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﮐﺎ ﻟﮩﻮ ﭘﺎﮎ ﻣﭩﯽ ﮐﻮ ﺳﺮﺥ ﮐﺮ ﮔﯿﺎ
ﺗﮭﺎ۔۔
ﻣﺠﮭﮯ ﻣﭩﯽ ﻣﯿﮟ ﻣﻠﻨﮯ ﻭﺍﻟﮯ
ﺍْﺱ ﻟﮩﻮ ﮐﺎ ﻗﺮﺽ ﺍﺗﺎﺭﻧﺎ ﮨﮯ۔ ۔ ۔
ﺍﻭﺭ ﻣﯿﺮﯼ ﻣﺎﮞ ﯾﮧ ﺳﻦ ﮐﺮ
ﻧﻢ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﺳﮯ
ﻣﺴﮑﺮﺍ ﺩﯾﺎ ﮐﺮﺗﯽ ﺗﮭﯽ۔ ۔ ۔
ﮐﺒﮭﯽ ﺟﻮ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﻣﯿﺮﯼ ﻣﺎﮞ ﻣﻠﮯ
ﺗﻮ ﺍْﺱ ﺳﮯ ﮐﮩﻨﺎ
ﺍﺱ ﮐﮯ ﺑﯿﭩﮯ ﻧﮯ ﻟﮩﻮ ﮐﺎ ﻗﺮﺽ ﭼﮑﺎ ﺩﯾﺎ ﺗﮭﺎ
ﺍﻭﺭ
ﺩﮬﺮﺗﯽ ﮐﯽ ﺑﯿﭩﯿﻮﮞ ﮐﮯ ﺁﻧﺴﻮ ﭼﻦ ﻟﯿﮯ
ﺗﮭﮯ۔ ۔ ۔
ﻣﯿﮟ ﺍﮐﺜﺮ ﻣﺎﮞ ﺳﮯ ﮐﮩﺘﺎ ﺗﮭﺎ
ﻣﯿﺮﺍ ﻭﻋﺪﮦ ﻣﺖ ﺑﮭﻼﻧﺎ،
ﮐﮧ ﺟﻨﮓ ﮐﮯ ﺍﺱ ﻣﯿﺪﺍﻥ ﻣﯿﮟ
ﺍﻧﺴﺎﻧﯿﺖ ﮐﮯ ﺩﺷﻤﻦ ﺩﺭﻧﺪﻭﮞ ﮐﮯ ﻣﻘﺎﺑﻞ
ﯾﮧ ﺑﮩﺎﺩﺭ ﺑﯿﭩﺎ ﭘﯿﭩﮫ ﻧﮩﯿﮟ ﺩﮐﮭﺎﺋﮯ ﮔﺎ
ﺍﻭﺭ ﺳﺎﺭﯼ ﮔﻮﻟﯿﺎﮞ
ﺳﯿﻨﮯ ﭘﮧ ﮐﮭﺎﺋﮯ ﮔﺎ
ﺍﻭﺭ ﻣﯿﺮﯼ ﻣﺎﮞ
ﯾﮧ ﺳﻦ ﮐﺮ
ﺗﮍﭖ ﺟﺎﯾﺎ ﮐﺮﺗﯽ ﺗﮭﯽ
ﮐﺒﮭﯽ ﺟﻮ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﻣﯿﺮﯼ ﻣﺎﮞ ﻣﻠﮯ
ﺗﻮ ﺍْﺱ ﺳﮯ ﮐﮩﻨﺎ،
ﺍﺱ ﮐﺎ ﺑﯿﭩﺎ ﺑﺰﺩﻝ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﮭﺎ،
ﺍﺱ ﻧﮯ ﭘﯿﭩﮫ ﻧﮩﯿﮟ ﺩﮐﮭﺎﺋﯽ ﺗﮭﯽ،
ﺍﻭﺭ ﺳﺎﺭﯼ ﮔﻮﻟﯿﺎﮞ ﺳﯿﻨﮯ ﭘﮧ ﮐﮭﺎﺋﯿﮟ
ﺗﮭﯽ۔ ۔ ۔۔
ﻣﯿﮟ ﺍﮐﺜﺮ ﻣﺎﮞ ﺳﮯ ﮐﮩﺘﺎ ﺗﮭﺎ،
ﺗﻢ ﻓﻮﺟﯿﻮﮞ ﺳﮯ ﻣﺤﺒﺖ ﮐﯿﻮﮞ ﮐﺮﺗﯽ ﮨﻮ؟
ﮨﻢ ﻓﻮﺟﯿﻮﮞ ﺳﮯ ﻣﺤﺒﺖ ﻧﮧ ﮐﯿﺎ ﮐﺮﻭ، ﻣﺎﮞ!
ﮨﻤﺎﺭﮮ ﺟﻨﺎﺯﮮ ﮨﻤﯿﺸﮧ ﺟﻮﺍﻥ ﺍْﭨﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ۔ ۔ ۔
ﺍﻭﺭ ﻣﯿﺮﯼ ﻣﺎﮞـ ـ ـ
ﻣﯿﺮﯼ ﻣﺎﮞ ﯾﮧ ﺳﻦ ﮐﺮ
ﺭﻭ ﺩﯾﺎ ﮐﺮﺗﯽ ﺗﮭﯽ ـ ـ ـ
ﮐﺒﮭﯽ ﺟﻮ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﻣﯿﺮﯼ ﻣﺎﮞ ﻣﻠﮯ
ﺗﻮ ﺍْﺱ ﺳﮯ ﮐﮩﻨﺎ،
ﻭﮦ ﻓﻮﺟﯿﻮﮞ ﺳﮯ ﻣﺤﺒﺖ ﻧﮧ ﮐﯿﺎ ﮐﺮﮮ۔ ۔ ۔
ﺍﻭﺭ
ﺩﺭﻭﺍﺯﮮ ﮐﯽ ﭼﻮﮐﮭﭧ ﭘﮧ ﺑﯿﭩﮫ ﮐﺮ
ﻣﯿﺮﺍ ﺍﻧﺘﻈﺎﺭ ﻧﮧ ﮐﯿﺎ ﮐﺮﮮ
ﺳﻨﻮ۔ !۔ ۔
ﺗﻢ ﻣﯿﺮﯼ ﻣﺎﮞ ﺳﮯ ﮐﮩﻨﺎ
ﻭﮦ ﺭﻭﯾﺎ ﻧﮧ ﮐﺮﮮ ۔ ۔ ۔




میرے چہرے کو جب دیکھنا



گرد سے اٹے میرے چہرے کو جب دیکھنا
میری تھکن، میری عرق آلود پیشانی نہ دیکھنا
میری آنکھوں میں عزم، میرے حوصلے کو دیکھنا

یاد کروں جب میں اپنے پیاروں کو

میرے چہرے پر چھائی اداسی نہ دیکھنا
وطن سے عشق اور میری قربانی کو دیکھنا

وار کھاؤں میں جب میدان جنگ میں
میرے زخم، میرے بہتے لہو کو نہ دیکھنا
میری ہمت، میری شجاعت، میری بہادری دیکھنا

شہادت کا تاج لگا کر آؤں جب میں
مجھے دکھ، غم حزن و ملال سے نہ دیکھنا
لبوں پر سجی میری مسکان دیکھنا
ہالے نور کے پھیلے حصار کو دیکھنا

میرے ماں،باپ،بھائی،بہن،بیوی،بچے
ان کی آنکھوں میں آئےاشک نہ دیکھنا
ان کے چہرے پر چھائے فخر و وقار دیکھنا




زندگی تیرا اعتبار نہیں



زندگی تیرا اعتبار نہیں
اس لئے ان کو تجھ سےپیار نہیں

جب وطن تو نے ان سے جان چاہی
ان سے پھر موت نے اماں چاہی

جان دے کر بھی اس کو کم سمجھیں
تیرے غم کو یہ اپنا غم سمجھیں

یہ زمین، ذات، پانچ دریائ
مقصدیت میں جیسے یکتائی

برف زاروں کو یہ سجاتے ہیں
ایسے دریا پہ چل کرآتے ہیں

پہلی بارش کی بوند کہلائیں
یہ ہواؤں کی گونج بن جائیں

یہ کہ صحرا میں چھاؤں بانٹے ہیں
یہ سمندر کے راز جانتے ہیں

جب بھی دریا ہے گھر اتر آیا
کام پھر ان کا ہی ہنر آیا

رات کو جب زلزلے سے کانپ اٹھے
ان کے پھر حوصلے سے ہانپ اٹھے

مرے سورج کو رات کیا دے گا
وسایل سے مات کیا دے گا

تو نے دیواریں بس بنائی ہیں
ہم نے وہ جسم سے اٹھائی ہیں

اپنے اپنے محاذ پر قائم
اے وطن تو رہے سدا دائم

اے وطن اب تو مسکرایا ہے
ہم نے پرچم تیرا اٹھایا ہے





Live Long Pak Army




ابرار الحق کی شاعری





پھر کہیں انقلاب آے گا


ابرار الحق


سر جلائیں گے روشنی ہوگی


اس اجالے میں فیصلے ہوںگے


روشنائی بھی خون کی ہوگی


اور وہ فاقہ کش قلم جس میں


جتنی چیخوں کی داستانیں ہیں


انکو لکھنے کی آرزو ہوگی


نہ ہی لمحہ قرار کا ہوگا


نہ ہی رستہ فرار کا ہوگا


وہ عدالت غریب کی ہوگی


جان اٹکی یزید کی ہوگی


اور پھر ایک فقیر کا بچہ


مسندوں پر بٹھایا جائے گا


اور ترازو کے دونوں پلڑوں میں


سرخ لمحوں کو تولہ جائے گا


سابقہ حاکمین حاضر ہوں


نام اور ولد بولا جائے گا


جو یتیموں کی طرف اٹھےتھے


ایسے ہاتھوں کو توڑ ڈالیں گے


اور جس نے روندی غریب کی عصمت


اسکی گردن مروڑ ڈالیں گے


جس نے بیچی ہے قلم کی طاقت


جس نے اپنا ضمیر بیچا ہے


جو دکانیں سجائے بیٹھے ہیں


سچ سے دامن چھڑائے بیٹھے ہیں


جس نے بیچا عذاب بیچا ہے


مفلسوں کو سراب بیچا ہے


دین کو بے حساب بیچا ہے


کچھ نے روٹی کا خواب بیچا ہے


اور کیا کہیں ہم کہ قوم نے خود کو


کس طرح بار بار بیچا ہے


فیض و اقبال کا پڑوسی ہوں


اک تڑپ میرے خون میں بھی ہے


آنکھ میں سلسلہ ہے خوابوں کا


اک مہک میرے چارسو بھی ہے


جھونپڑی کے نصیب بدلیں گے


پھر کہیں انقلاب آئے گا


بیٹھ رھنے سے کچھ نہیں ہو گا


ایک دن انقلاب آئے گا


یہ غازی ، یہ تیرے پراسرار بندے



یہ غازی ، یہ تیرے پراسرار بندے

جنھیں تو نے بخشا ہے ذوق خدائی

دو نیم ان کی ٹھوکر سے صحرا و دریا

سمٹ کر پہاڑ ان کی ہیبت سے رائی

دو عالم سے کرتی ہے بیگانہ دل کو

عجب چیز ہے لذت آشنائی

شہادت ہے مطلوب و مقصود مومن

نہ مال غنیمت نہ کشور کشائی

خیاباں میں ہے منتظر لالہ کب سے

قبا چاہیے اس کو خون عرب سے

کیا تو نے صحرا نشینوں کو یکتا

خبر میں ، نظر میں ، اذان سحر میں

طلب جس کی صدیوں سے تھی زندگی کو

وہ سوز اس نے پایا انھی کے جگر میں

کشاد در دل سمجھتے ہیں اس کو

ہلاکت نہیں موت ان کی نظر میں

دل مرد مومن میں پھر زندہ کر دے

وہ بجلی کہ تھی نعرۂ لاتذر ، میں

عزائم کو سینوں میں بیدار کردے

نگاہ مسلماں کو تلوار کردے

میرے ملک مین قتل وجدال نہ ھو
بھاری یہ کسی پر سال نہ ھو
ھر شے پر وحشت طاری ھے
کہی یہ ھی وقت زرال نہ ھو
ھر گام پر رک کر سوچتے ھیں
کہیں یہ دشمن کی چال نہ ھو
مايئں بھی چین سے سو جایئں
بچہ بھی کوئ نڈھال نہ ھو
میرا گیان دھیان یہ کہتا ھے
اچھے لوگوں کا کال نہ ھو
اس شہر ستمگر میں یا رب
مانوس کوئ خدوخال نہ ھو
میرے ملک میں قتل وعام نہ ھو
بھاری یہ کسی پر سال نہ ھو
شاھین رضوی

وطن کی مٹی


وطن کی مٹی

وطن کی مٹی ۔۔۔۔۔ بجا کہ گلزار ِ زندگی کا
ہر ایک غنچہ دریدہ داماں ، لہو لہو ہے
چلن خزاں کی شقاوتوں کا ، ہلاکتوں کا
... ہے قریہ قریہ تو کُو بہ کُو ہے
ہر ایک ٹہنی ہے نخل ِ جاں کی ۔۔۔ ستم رسیدہ
۔۔۔۔۔ الم گزیدہ

وطن کی مٹی ۔۔۔۔۔ گواہ رہنا
کہ یہ حقیقت ہے ، یہ ہی سچ ہے
روش روش پہ جو مثل ِ لالہ دمک رہا ہے
حیات ِ نو کے دلوں کی دھڑکن ، نوید ِ عہد ِ جدید بن کر
جو تیرے ذروں میں ، تن بدن میں جذب ہوا ہے
وہ تیرے جانبازوں ، جاں نثاروں
تیرے سپوتوں تیرے شہیدوں کا
بے بہا ، جاں فزاء لہو ہے

وطن کی مٹی ۔۔۔۔۔
اسی لہو کی طراوتوں سے ، تمازتوں سے
بطن ِ گیتی میں اک نیا دور پَل رہا ہے
یہی لہو ظلمت ِ شب ِ غم کے وقت ِ آخر
افق افق پہ شفق کی لالی میں ڈھل رہا ہے
اسی لہو سے ، ستم کی آندھی میں بھی فروزاں
ہر اک نفس میں چراغ ِ اُمید جل رہا ہے

وطن کی مٹی ۔۔۔۔۔ یقین رکھنا
کہیں جہاں میں ، خزاں کی رُت دائمی نہیں ہے
ستم کی کالی سیاہ راتیں ، طویل بھی ہوں
تو ان کا ڈھلنا
رُتیں بدلنا ۔۔۔۔۔ نسیم ِ صبح ِ بہار چلنا
یہ دین ِ فطرت ہے ، عین ِ حق ہے
یہ بالیقیں ہے
یقین رکھنا ۔۔۔۔۔ شب ِ ستم کا ، عذاب رُت کا
یہ بالیقیں دور ِ آخریں ہے
( انشااللہ )
جب عصمت کی شہزادی نے
سندھ میں خون بہایا تھا
پھر بن قاسم اک مرد جواں
اللہ کے حکم سے آیا تھا
آج
آج سندھ میں کتنی عصمتیں ہیں
جو گردِ ہوا بن جاتی ہیں
اور کتنی مائیں روتے روتے
خود ہی چپ کر جاتی ہیں
اس رب کو کیا بتلائیں گے ہم؟
یہ قوم غیور تو اب تک ہے
کوئی ابنِ قاسم کیوں نہ رہا؟
وہ اندلس کے میدانوں میں
تلوارِ طارق چمکی تھی
پھر آن کے آن ،کتنے برس
اللہ کی رحمت برسی تھی
پھر نوچ کے کھاگئے عیسائی
اور مسجد ،ممبر کچھ نہ رہا
نہ اللہ اکبر کی صدا ٓئی
اس رب کو کیا بتلائیں گے ہم؟
کوئی طارق جیسا کیوں نہ رہا؟
جسکی نہ کوئی صبح ہو
عراق میں ایسی شام ڈھلی
ایماں کے رکھوالے سینوں پر
کفر و عناد کی تلوار چلی
جو انگلیاں تسبیح کرتی تھیں
وہ تن سے جدا کر ڈالی گئیں
اس رب کو کیا بتلائیں گے ہم؟
وہ مومن یا ایماں والے
اس ارضِ وسیع پر کیوں نہ رہے؟
افغانستان میں سسکیوں کا
اک اور نیا سیلاب اٹھا
آنسو لہو کے قطرے تھے
دل آگ کے شعلے پر تھا جلا
ہر اک منزل، ہر ہررستہ
ہرہر چادر، ہر ہر پردہ
گھر کوئی سلامت ہی نہ رہا
"ہم نے تو کہا تھا اے مالک !
تجھے کبھی نہ روٹھنے دیں گے ہم
یہ جان یہ تن لگائیں گے
گر روٹھ گیا تو منائیں گے"
کل پہلی رات کے کتنے چاند
گہر ی نیند سلاڈالے
ہر ہر تارا اندھیرے میں
کتنے چراغ بجھا ڈالے
کوئی کرچی بھی باقی نہ رہی
ہزاروں دیئے گرا ڈالے
غزہ کی چار دیواری میں
ڈھیروں!!!معصوم مروا ڈالے
جو رات قبر میں آنی ہے ،
وہ رات قبر میں آنی ہے
پھر دن کے اتنے پہروں میں
ہم بار ہا قبر میں کیوں جائیں؟؟؟
"جب پھوٹ پڑے تو یہی مومن
زرہ زرہ، قطرہ قطرہ
گر مل جائے تو طوفان میں بھی
چٹان ہے یہ واللہ واللہ"
پھر اب کیوں زرہ زرہ بن کر
ہوا کے سپرد ہو جائیں ہم
چلو اپنی عصمت بچائیں ہم
اور اپنے گھر کی رکھوالی میں
چلو متحد ہوجائیں ہم
اور
اپنے رب کو منائیں ہم
"اشکوں کے زخیرے لٹا ڈالیں
یہ جان یہ تن لگا ڈ ا لیں
چلو اپنے رب کو مناڈالیں

صفدر ہمدانی

ہم پاک وطن کی گلیوں سے بازاروں سے شرمندہ ہیں
رونے والی ماؤں سے غمخواروں سے شرمندہ ہیں
خون کے چھینٹے جن پر ان دیواروں سے شرمندہ ہیں
اے ارض وطن سچ پوچھ ترے معماروں سے شرمندہ ہیں
شرمندہ ہیں اپنے وطن کی بیٹیوں،بہنوں ماؤں سے
شرمندہ ہیں شہروں،گلیوں،بازاروں سے گاؤں سے
شرمندہ ہم ہرے بھرے اشجار سے انکی چھاؤں سے
شرمندہ ہم روح سے اپنی،جسم سے،سر سے پاؤں سے
شرمندہ ہم آس،امید سے خون بھری آشاؤں سے
اے ارض وطن شرمندہ ہیں ہم تیرے گلوں سے گلشن سے
شرمندہ ہیں سرو و سمن سے کوہساروں کے دامن سے
شرمندہ ہیں گھر سے گھر کی چھت سے گھر کے آنگن سے
اے پاک وطن شرمندہ ہیں ہم بادل،بارش ساون سے
اے ارض وطن شرمندہ ہیں
اے پاک وطن شرمندہ ہیں
شرمندہ ہم خوشبو سے ہیں شرمندہ ہم پھول سے ہیں
مندر و مسجد سے شرمندہ ،شرمندہ اسکول سے ہیں
شرمندہ مٹی سے تیری سڑکوں کی اس دھول سے ہیں
لعنت تیرے ہر قاتل پر شرمندہ مقتول سے ہیں
یہ خود کش کس مٹی سے نکلے
کس بستی سے آئے ہیں
کس نے انکی فصل اگائی
کون انہیں یاں لائے ہیں
کون خدا کے بندوں کے ان قاتلوں کا رکھوالا ہے
کون ان خون رنگے ہاتھوں پہ بیعت کرنے والا ہے
کس نے میرے گھر آنگن میں ربا خون اچھالا ہے
کس نے ان سانپوں کو سائیں دودھ پلا کے پالا ہے
یہ کیسے ظالم قاتل ہیں
جو خود کو کلمہ گو کہتے ہیں،کلمہ گو کو مارتے ہیں
دن میں سو سو بار یہ اپنے سامنے خود ہی ہارتے ہیں
کس ظالم نے ہنستے بستے شہر مرے برباد کیئے
کس نے ہر اک شہر کے اجڑے قبرستاں آباد کیئے
کس نے پھول سے چہرے خون کے غازے سے ناشاد کیئے
کس نے یہ انسان کے دشمن خود کش سب آزاد کیئے
کس نے اپنی آگ ہمارے گھر میں آن لگائی ہے
کس نے خون کے دیئے جلا کر اپنی شام سجائی ہے
کس نے میرے دروازے پر موت کی شکل بنائی ہے
کس نے گل رخ بچوں کے دامن کو آگ دکھائی ہے
کس نے یہ بارود کی بارش دن دیوے برسائی ہے
کملی والے مدد کو آؤ حسن حسین دہائی ہے
اے ارض وطن شرمندہ ہیں
اے پاک وطن شرمندہ ہیں
شرمندہ ہیں ان سے جن کے گھر میں ماتم داری ہیں
شرمندہ ہیں ان سے جن کی گلیوں میں بیزاری ہے
شرمندہ ہر شخص سے جس نے جان کی بازی ہاری ہے
شرمندہ اس باپ سے جس نے اپنے کڑیل بیٹے کی
قبر میں لاش اتاری ہے
شرمندہ اس ماں سے جس کی آنکھوں سے خوں جاری ہے
شرمندہ بیٹے سے جس پر سانس بھی لینا بھاری ہے
شرمندہ اس بہن سے جسکی قسمت میں غمخواری ہے
شرمندہ اس بیٹی سے جو باپ سے کٹ کر زندہ ہے
شرمندہ اس قوم سے جو فرقوں میں بٹ کر زندہ ہے
شرمندہ ملت سے جو مرکز سے ہٹ کر زندہ ہے
شرمندہ ہیں پاک وطن ہم آنے والی نسلوں سے
شرمندہ ہیں کھیتوں سے کھلیانوں سےاور فصلوں سے
اے ارض وطن اب مجھ جیسے سب دیوانے
یہ سوچنے پر مجبور ہوئے
اس پاک وطن کے معماروں نے
جب خواب اک سچا دیکھا تھا
پھر ان ظالم جابر حاکموں نے
اس خواب کو کیوں تعبیر نہ دی
کیوں مفلس آج بھی مفلس ہے
کیوں اہلِ ہُنر غربت میں ہیں
کیوں صاحبِ عزت گُم سُم ہیں
کیوں دین فروش سکون میں ہیں
کیوں عالم پہ تنگ دستی ہے
کیونکر ہے جاہل تخت تشیں
کیوں راہنما سب ڈاکو ہیں
کیوں نفس کا مارا منصف ہے
کیوں عدل سے عاری عدالت ہے
کیوں قتل کے حق میں وکالت ہے
قرآن ہے کیوں پھر نیزے پر
دربار میں پھر سادات ہیں کیوں
اک بار میں پھر یہ پوچھتا ہوں
کس نے میرے دروازے پر موت کی شکل بنائی ہے
کس نے گل رخ بچوں کے دامن کو آگ دکھائی ہے
کس نے یہ بارود کی بارش دن دیوے برسائی ہے
کملی والے مدد کو آؤ حسن حسین دہائی ہے
اے ارض وطن شرمندہ ہیں
اے پاک وطن شرمندہ ہیں
ہم بیٹے بیٹیاں تیرے تجھ سے باندھ کے ہاتھ یہ پوچھتے ہیں
کس نے تیرے چاندی جیسے جسم پہ زخم لگائے ہیں
کس نے تیرے چاند ستارے مٹی میں دفنائے ہیں
کس نے تیرے معصوموں پرخود کُش تیر چلائے ہیں
کس نے آگ میں نفرت کی ترے روشن شہر جلائے ہیں
کس نے تیری عزت غیرت بیچ کے ظلم کمائے ہیں
کس نے تیرے پانی میں نفرت کا زہر ملایا ہے
کس نے تیری گلیوں میں بارود کا مینہہ برسایا ہے
کس نے تیری دھرتی کے سینے میں درد اگایا ہے
اے ارض وطن ہم مجرم ہیں
ہم تیری حفاظت کر نہ سکے
زندہ تو رہے ترے نام پہ ہم،ترے نام پہ لیکن مر نہ سکے
اے ارض وطن شرمندہ ہیں!
ہم پاک وطن کی گلیوں سے بازاروں سے شرمندہ ہیں