Pages

غریب تو رمضان گزارے گا منائے گا نہیں!

حیرت ہی.... باربار حیرت ہے۔ جو سنتا ہے حیرت کا ہی اظہار کرتا ہے۔ رمضان المبارک‘ حج وعمرہ سیزن، عیدین وغیرہ کے حوالے سے پاکستان میں مہنگائی، اشیائے خورونوش کی کمیابی، حج و عمرہ کے فضائی ٹکٹ اور فیسوں میں بے پناہ اضافہ شاید پاکستانیوں کے لیے نئی خبرنہ ہو، لیکن جب دنیا کا کوئی ملک اپنے ہاں کوئی تہوار مناتا ہی، کوئی مذہبی رسم ادا کرتا ہے تو وہاں حکومتیں اور ادارے عوام کو سہولتیں پہنچانے کے لیے طرح طرح کے بہانے ڈھونڈتے ہیں۔ کرسمس ہو، گڈ فرائیڈے ہو، یا ایسٹر.... سال کے آخر میں موسم سرما کی چھٹیاں ہوں یا اسکولوں کی چھٹیوں کے خاتمے پر اسکول واپسی کی مہم.... ہر ہرموقع پر عوام کو تحائف، ایک خریدنے پر دو یا کم قیمت پر اس تہواریا موقع کی مناسبت سے اشیاءملتی ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ بھارت جیسے ہندو ملک میں حج اور عمرے کے موقع پر مسلمانوں کے لیے ٹکٹ میں رعایت دی جاتی ہے۔ جبکہ پاکستان میں کوئی کسی سے پیچھے نہیں۔ رمضان سے ایک دن قبل کے اخبارات ہوشربا گرانی کی خبروں سے بھرے ہوئے ہیں۔ ایک طرف تو ناجائز منافع خور ہیں جوکوئی موقع نہیں چھوڑتی، دوسری طرف حکومت ہے جو اس صورت حال کو کنٹرول کرنے میں یا تو دلچسپی نہیں رکھتی، یا خود وجود نہیں رکھتی۔ تازہ خبر یہ ہے جو حکومت کے وفاقی ادارہ ¿ شماریات نے جاری کی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ صرف جولائی کے آخری ہفتے میں عام استعمال کی اشیاءکی قیمتوں میں 15 فیصد سے زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ ان میں پیاز‘ ٹماٹر‘آلو‘ مرغی کا گوشت اورچاول وغیرہ شامل ہیں، جبکہ وفاقی ادارہ ¿ شماریات شاید بیسن‘دال اور پھلوںکو شمار ہی نہیں کرتا، اس لیے ان کی قیمتوں کو شمار ہی نہیں کیا جو روزانہ کی بنیاد پر بڑھ رہی ہیں۔ 28 جولائی کو 40 روپے درجن ملنے والے کیلے 30 جولائی کو 60 روپے میں مل رہے تھی، اور یکم اگست کو ان کی قیمت 70 روپے فی درجن ہوگئی تھی۔ خوردنی تیل‘ دودھ‘ انڈے وغیرہ بھی شاید وفاقی ادارہ ¿ شماریات کے شمار میں نہیں آتے یا جس اخبار کو ہم نے دیکھا اُس کے سامنے یہ اعداد وشمار نہیں آئے۔ لیکن اوگرا نے کیا کیا.... اس موقع پر پٹرول‘ ڈیزل اور مٹی کے تیل کی قیمتیں بڑھانے کا فیصلہ کرلیا۔ ظاہر بات ہے پٹرول کی قیمتوں میں اضافے کا مطلب پھلوں، سبزیوں اوردیگر اشیاءکی قیمتوں میں اضافہ ہی ہوتا ہے۔ پھر کیا وجہ ہے کہ حکومت نے ایسے ہی موقع پر اہم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کا فیصلہ کیا ہی! ایسا لگتا ہے کہ حکومت ہو یا منافع خور.... دونوں کا منشور یہی ہے کہ کھانے کمانے کے دن یہی تو ہیں۔ ہم نے حیرت کا اظہار اس لیے کیا کہ بھارت کے نام میں اسلامی جمہوریہ نہیں لکھا۔ امریکا، برطانیہ اور دیگر ممالک کے ناموں میں عیسائی جمہوریہ نہیں لکھا، لیکن وہاں ایسے مواقع پر عوام کو بے تحاشا سہولتیں دی جاتی ہیں، لیکن پاکستان میں لوگ چاندکے جھگڑوں میں پڑجاتے ہیں۔ قوم مہنگائی کے چکر میں الجھی ہوئی ہے اور پاکستان میں ایبٹ آباد آپریشن کا اہم کردار سی آئی اے کا پاکستان اسٹیشن کا چیف پاکستان سے نکل گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ ٹارگٹ کلنگ بھی جاری ہے اور بلوچستان بھی الجھا ہوا ہے۔ خیبر پختون خوا میں امریکی فوج اور پاکستانی فوج آپریشن کررہی ہیں۔ ایسے میں کس کو پڑی ہے کہ پاکستان میں اس قسم کے سوالات اٹھائے۔ان حالات پر حیرت اس لیے ہوتی ہے کہ ہم نے سعودی عرب میں کافی وقت گزارا ہے۔ اس کے نظام حکومت پر بڑی تنقید کی جاتی ہے۔ وہاں جمہوریت لانے کے لیے امریکا اور یورپ بے چین ہیں۔ عورتوں کی ڈرائیونگ وہاں کا اولین مسئلہ قرار پارہا ہی، لیکن جب ہمیں پہلا رمضان وہاں ملا تو ہم نے گزارا نہیں منایا۔ پورے عرب ممالک میں لوگ رمضان مناتے ہیں اور پاکستان کا غریب رمضان بمشکل گزارتا ہے۔ اس کا روزہ کھولنا مشکل، اس کا روزہ رکھنا بھی مشکل، اسے ان دونوں معمولات کے بعد تراویح کے لیے بھی وقت، لباس اور پانی کی ضرورت ہوتی ہے۔ کہاں سے لائے گا! بجلی ہے نہیں، جس کی وجہ سے پانی نہیں۔ اور یہ مسئلہ اس فرد کا ہے جو متوسط طبقے یا غریب طبقے کا ہی، جو درحقیقت رمضان منانا چاہتا ہے۔ سعودی عرب میں ہمارا پہلا رمضان تھا۔ چاند کی اطلاع کمپیوٹر اور مانیٹرنگ کے شعبے والوں کو پہلے ہوگئی تھی۔ مغرب کی نماز پڑھ کر بیٹھے ہی تھے کہ چیف ایڈیٹر نے ہمارے نیوز روم میں گردن داخل کی اور دروازے سے ہی باآواز بلند کہا ”رمضان کریم“۔ ابھی عربی بھی نہیں آتی تھی، ہم سمجھے کسی رمضان کریم صاحب کو بلارہے ہیں۔ لیکن تھوڑی دیر بعد پتا چلا کہ رواں ماہ کی تنخواہ کی سلپ ڈیسک پرموجود ہے۔ ڈیوٹی ختم کرکے باہر نکلے تو رونق لگی ہوئی تھی۔ رات تین بجے تک دکانیں کھلی تھیں۔ رمضان کے تیسرے ہفتے میں ایک اور اطلاع ملی کہ رمضان اور عیدالفطر کا بونس ملے گا۔ اور عید کے بعد پتا چلا کہ عیدکا بونس الگ ملے گا۔ پھر باہر نکلیں تو سرکاری ادارے تو ایک طرف جو لاکھوں کروڑوں ریال رمضان اور حج کے موقع پر خرچ کرتے ہیں، عام آدمی بھی اور مالدار شیوخ بھی مال خرچ کرنے کے لیے ایسے گھومتے ہیں جیسے پاکستانی پولیس شکارکے لیے گھومتی ہے۔ تو پھر بتائیں ہمیں حیرت ہوگی کہ نہیں! عربستان کا عام آدمی بھی رمضان مناتا ہے۔ ہم یہاں مسجدوں میں تیسرے درجے کا مال بھیج کر اللہ سے ثواب کے طلب گار بلکہ دعویدار ہوتے ہیں۔ وہاں مسجدوں میں بروسٹ اور لسی کا افطار ہوتا ہے۔ مدینہ منورہ میں تو مہمانداری کے لیے لڑائیاں ہوجاتی ہیں۔ پھر کس کا رمضان منانے کا دل نہیں چاہے گا! یہاں تو جو رمضان منانا چاہتا ہے وہ گزارنے پر مجبور ہی، اور جس کا کوئی مسئلہ نہیں اسے کسی مسئلے سے کوئی سروکار نہیں۔ بہرحال بدحالی میں رمضان مبارک۔ ہماری طرف سے بھی رمضان کریم مبروک۔

(مظفر اعجاز)


0 comments: