Pages

ادھورا خواب

کبھی اک خواب ديکھا تھا وطن ميرا وطن ھو گا
سبھی آپنے يہاں ھونگے يہاں کوي غير نہ ھو گا
کھليں گے پھول سرسوں کے گلی کوچہ چمن ھو گا
اٹھيں گی جس طرف نظريں اسی جانب امن ھو گا
حقیقت خواب تھا میرا مگر تعبیر نہ نکلی
چنا نسخہ حکیموں کا مگر تاثیر نہ نکلی
میدان چنگ اترنا تھا مجھے انصاف کی خاطر
گلا دیکھا جو اپنوں کا میری شمشیر نہ نکلی
وطن چھوڑا فرھنگی نے تو ھاتھ آیا وڈیروں کے
وطن لوٹا بے رحمی سے یہ بیٹے تھے لٹیروں کے
بناھیں اپنی جاگیریں خزانہ قوم کا لوٹا
کیا مقروض ملت کو دھیے طحفے اندھیرون کے
کڑکتی دھوپ نے مارا کبھی اولے گرے مجھ پر
کبھی مارے گیے کوڑے کبھی گولے گرے مجھ پر
کبھی جرنیل کا تھپڑ کبھی جج کی پڑی گالی
سویا میں کبھی بھوکا کبھی کچھ مانگ کی کھا لی
میں محنت کش- میں دھقاں ھوں مجھےانصاف دلوا دو
میرا جینا ھوا مشکل مجھے کچھ آس دلوا دو
کمشنر جج اور جرنل بنے ھو بوجھ ملت پر
میری محنت کی اجرت تم مجھے کچھ راس دلوا دو
نظام عمرلانا تھا توتم نے- کیوں نہیں لآیا
میں ترسوں دال روٹی کو تیرا کیوں - باھر سرمایا
یہ کیسا ملک اسلامی یہ کیوں کر- جھوٹ کےنعرے
صداے حق کہنے سے ھر کوی باز کیوں آیا

0 comments: