Pages

وطن کی مٹی


وطن کی مٹی

وطن کی مٹی ۔۔۔۔۔ بجا کہ گلزار ِ زندگی کا
ہر ایک غنچہ دریدہ داماں ، لہو لہو ہے
چلن خزاں کی شقاوتوں کا ، ہلاکتوں کا
... ہے قریہ قریہ تو کُو بہ کُو ہے
ہر ایک ٹہنی ہے نخل ِ جاں کی ۔۔۔ ستم رسیدہ
۔۔۔۔۔ الم گزیدہ

وطن کی مٹی ۔۔۔۔۔ گواہ رہنا
کہ یہ حقیقت ہے ، یہ ہی سچ ہے
روش روش پہ جو مثل ِ لالہ دمک رہا ہے
حیات ِ نو کے دلوں کی دھڑکن ، نوید ِ عہد ِ جدید بن کر
جو تیرے ذروں میں ، تن بدن میں جذب ہوا ہے
وہ تیرے جانبازوں ، جاں نثاروں
تیرے سپوتوں تیرے شہیدوں کا
بے بہا ، جاں فزاء لہو ہے

وطن کی مٹی ۔۔۔۔۔
اسی لہو کی طراوتوں سے ، تمازتوں سے
بطن ِ گیتی میں اک نیا دور پَل رہا ہے
یہی لہو ظلمت ِ شب ِ غم کے وقت ِ آخر
افق افق پہ شفق کی لالی میں ڈھل رہا ہے
اسی لہو سے ، ستم کی آندھی میں بھی فروزاں
ہر اک نفس میں چراغ ِ اُمید جل رہا ہے

وطن کی مٹی ۔۔۔۔۔ یقین رکھنا
کہیں جہاں میں ، خزاں کی رُت دائمی نہیں ہے
ستم کی کالی سیاہ راتیں ، طویل بھی ہوں
تو ان کا ڈھلنا
رُتیں بدلنا ۔۔۔۔۔ نسیم ِ صبح ِ بہار چلنا
یہ دین ِ فطرت ہے ، عین ِ حق ہے
یہ بالیقیں ہے
یقین رکھنا ۔۔۔۔۔ شب ِ ستم کا ، عذاب رُت کا
یہ بالیقیں دور ِ آخریں ہے
( انشااللہ )
جب عصمت کی شہزادی نے
سندھ میں خون بہایا تھا
پھر بن قاسم اک مرد جواں
اللہ کے حکم سے آیا تھا
آج
آج سندھ میں کتنی عصمتیں ہیں
جو گردِ ہوا بن جاتی ہیں
اور کتنی مائیں روتے روتے
خود ہی چپ کر جاتی ہیں
اس رب کو کیا بتلائیں گے ہم؟
یہ قوم غیور تو اب تک ہے
کوئی ابنِ قاسم کیوں نہ رہا؟
وہ اندلس کے میدانوں میں
تلوارِ طارق چمکی تھی
پھر آن کے آن ،کتنے برس
اللہ کی رحمت برسی تھی
پھر نوچ کے کھاگئے عیسائی
اور مسجد ،ممبر کچھ نہ رہا
نہ اللہ اکبر کی صدا ٓئی
اس رب کو کیا بتلائیں گے ہم؟
کوئی طارق جیسا کیوں نہ رہا؟
جسکی نہ کوئی صبح ہو
عراق میں ایسی شام ڈھلی
ایماں کے رکھوالے سینوں پر
کفر و عناد کی تلوار چلی
جو انگلیاں تسبیح کرتی تھیں
وہ تن سے جدا کر ڈالی گئیں
اس رب کو کیا بتلائیں گے ہم؟
وہ مومن یا ایماں والے
اس ارضِ وسیع پر کیوں نہ رہے؟
افغانستان میں سسکیوں کا
اک اور نیا سیلاب اٹھا
آنسو لہو کے قطرے تھے
دل آگ کے شعلے پر تھا جلا
ہر اک منزل، ہر ہررستہ
ہرہر چادر، ہر ہر پردہ
گھر کوئی سلامت ہی نہ رہا
"ہم نے تو کہا تھا اے مالک !
تجھے کبھی نہ روٹھنے دیں گے ہم
یہ جان یہ تن لگائیں گے
گر روٹھ گیا تو منائیں گے"
کل پہلی رات کے کتنے چاند
گہر ی نیند سلاڈالے
ہر ہر تارا اندھیرے میں
کتنے چراغ بجھا ڈالے
کوئی کرچی بھی باقی نہ رہی
ہزاروں دیئے گرا ڈالے
غزہ کی چار دیواری میں
ڈھیروں!!!معصوم مروا ڈالے
جو رات قبر میں آنی ہے ،
وہ رات قبر میں آنی ہے
پھر دن کے اتنے پہروں میں
ہم بار ہا قبر میں کیوں جائیں؟؟؟
"جب پھوٹ پڑے تو یہی مومن
زرہ زرہ، قطرہ قطرہ
گر مل جائے تو طوفان میں بھی
چٹان ہے یہ واللہ واللہ"
پھر اب کیوں زرہ زرہ بن کر
ہوا کے سپرد ہو جائیں ہم
چلو اپنی عصمت بچائیں ہم
اور اپنے گھر کی رکھوالی میں
چلو متحد ہوجائیں ہم
اور
اپنے رب کو منائیں ہم
"اشکوں کے زخیرے لٹا ڈالیں
یہ جان یہ تن لگا ڈ ا لیں
چلو اپنے رب کو مناڈالیں

صفدر ہمدانی

ہم پاک وطن کی گلیوں سے بازاروں سے شرمندہ ہیں
رونے والی ماؤں سے غمخواروں سے شرمندہ ہیں
خون کے چھینٹے جن پر ان دیواروں سے شرمندہ ہیں
اے ارض وطن سچ پوچھ ترے معماروں سے شرمندہ ہیں
شرمندہ ہیں اپنے وطن کی بیٹیوں،بہنوں ماؤں سے
شرمندہ ہیں شہروں،گلیوں،بازاروں سے گاؤں سے
شرمندہ ہم ہرے بھرے اشجار سے انکی چھاؤں سے
شرمندہ ہم روح سے اپنی،جسم سے،سر سے پاؤں سے
شرمندہ ہم آس،امید سے خون بھری آشاؤں سے
اے ارض وطن شرمندہ ہیں ہم تیرے گلوں سے گلشن سے
شرمندہ ہیں سرو و سمن سے کوہساروں کے دامن سے
شرمندہ ہیں گھر سے گھر کی چھت سے گھر کے آنگن سے
اے پاک وطن شرمندہ ہیں ہم بادل،بارش ساون سے
اے ارض وطن شرمندہ ہیں
اے پاک وطن شرمندہ ہیں
شرمندہ ہم خوشبو سے ہیں شرمندہ ہم پھول سے ہیں
مندر و مسجد سے شرمندہ ،شرمندہ اسکول سے ہیں
شرمندہ مٹی سے تیری سڑکوں کی اس دھول سے ہیں
لعنت تیرے ہر قاتل پر شرمندہ مقتول سے ہیں
یہ خود کش کس مٹی سے نکلے
کس بستی سے آئے ہیں
کس نے انکی فصل اگائی
کون انہیں یاں لائے ہیں
کون خدا کے بندوں کے ان قاتلوں کا رکھوالا ہے
کون ان خون رنگے ہاتھوں پہ بیعت کرنے والا ہے
کس نے میرے گھر آنگن میں ربا خون اچھالا ہے
کس نے ان سانپوں کو سائیں دودھ پلا کے پالا ہے
یہ کیسے ظالم قاتل ہیں
جو خود کو کلمہ گو کہتے ہیں،کلمہ گو کو مارتے ہیں
دن میں سو سو بار یہ اپنے سامنے خود ہی ہارتے ہیں
کس ظالم نے ہنستے بستے شہر مرے برباد کیئے
کس نے ہر اک شہر کے اجڑے قبرستاں آباد کیئے
کس نے پھول سے چہرے خون کے غازے سے ناشاد کیئے
کس نے یہ انسان کے دشمن خود کش سب آزاد کیئے
کس نے اپنی آگ ہمارے گھر میں آن لگائی ہے
کس نے خون کے دیئے جلا کر اپنی شام سجائی ہے
کس نے میرے دروازے پر موت کی شکل بنائی ہے
کس نے گل رخ بچوں کے دامن کو آگ دکھائی ہے
کس نے یہ بارود کی بارش دن دیوے برسائی ہے
کملی والے مدد کو آؤ حسن حسین دہائی ہے
اے ارض وطن شرمندہ ہیں
اے پاک وطن شرمندہ ہیں
شرمندہ ہیں ان سے جن کے گھر میں ماتم داری ہیں
شرمندہ ہیں ان سے جن کی گلیوں میں بیزاری ہے
شرمندہ ہر شخص سے جس نے جان کی بازی ہاری ہے
شرمندہ اس باپ سے جس نے اپنے کڑیل بیٹے کی
قبر میں لاش اتاری ہے
شرمندہ اس ماں سے جس کی آنکھوں سے خوں جاری ہے
شرمندہ بیٹے سے جس پر سانس بھی لینا بھاری ہے
شرمندہ اس بہن سے جسکی قسمت میں غمخواری ہے
شرمندہ اس بیٹی سے جو باپ سے کٹ کر زندہ ہے
شرمندہ اس قوم سے جو فرقوں میں بٹ کر زندہ ہے
شرمندہ ملت سے جو مرکز سے ہٹ کر زندہ ہے
شرمندہ ہیں پاک وطن ہم آنے والی نسلوں سے
شرمندہ ہیں کھیتوں سے کھلیانوں سےاور فصلوں سے
اے ارض وطن اب مجھ جیسے سب دیوانے
یہ سوچنے پر مجبور ہوئے
اس پاک وطن کے معماروں نے
جب خواب اک سچا دیکھا تھا
پھر ان ظالم جابر حاکموں نے
اس خواب کو کیوں تعبیر نہ دی
کیوں مفلس آج بھی مفلس ہے
کیوں اہلِ ہُنر غربت میں ہیں
کیوں صاحبِ عزت گُم سُم ہیں
کیوں دین فروش سکون میں ہیں
کیوں عالم پہ تنگ دستی ہے
کیونکر ہے جاہل تخت تشیں
کیوں راہنما سب ڈاکو ہیں
کیوں نفس کا مارا منصف ہے
کیوں عدل سے عاری عدالت ہے
کیوں قتل کے حق میں وکالت ہے
قرآن ہے کیوں پھر نیزے پر
دربار میں پھر سادات ہیں کیوں
اک بار میں پھر یہ پوچھتا ہوں
کس نے میرے دروازے پر موت کی شکل بنائی ہے
کس نے گل رخ بچوں کے دامن کو آگ دکھائی ہے
کس نے یہ بارود کی بارش دن دیوے برسائی ہے
کملی والے مدد کو آؤ حسن حسین دہائی ہے
اے ارض وطن شرمندہ ہیں
اے پاک وطن شرمندہ ہیں
ہم بیٹے بیٹیاں تیرے تجھ سے باندھ کے ہاتھ یہ پوچھتے ہیں
کس نے تیرے چاندی جیسے جسم پہ زخم لگائے ہیں
کس نے تیرے چاند ستارے مٹی میں دفنائے ہیں
کس نے تیرے معصوموں پرخود کُش تیر چلائے ہیں
کس نے آگ میں نفرت کی ترے روشن شہر جلائے ہیں
کس نے تیری عزت غیرت بیچ کے ظلم کمائے ہیں
کس نے تیرے پانی میں نفرت کا زہر ملایا ہے
کس نے تیری گلیوں میں بارود کا مینہہ برسایا ہے
کس نے تیری دھرتی کے سینے میں درد اگایا ہے
اے ارض وطن ہم مجرم ہیں
ہم تیری حفاظت کر نہ سکے
زندہ تو رہے ترے نام پہ ہم،ترے نام پہ لیکن مر نہ سکے
اے ارض وطن شرمندہ ہیں!
ہم پاک وطن کی گلیوں سے بازاروں سے شرمندہ ہیں

اے خاک نشینو اٹھ بیٹھو، وہ وقت قریب آ پہنچا ہے


دربارِ وطن میں جب اک دن سب جانے والے جائیں گے

کچھ اپنی سزا کو پہنچیں گے ، کچھ اپنی جزا لے جائیں گے

اے خاک نشینو اٹھ بیٹھو، وہ وقت قریب آ پہنچا ہے

جب تخت گرائے جائیں گے، جب تاج اچھالے جائیں گے

اب ٹوٹ گریں گی زنجیریں اب زندانوں کی خیر نہیں

جو دریا جھوم کے اُٹھے ہیں، تنکوں سے نہ ٹالے جائیں گے

کٹتے بھی چلو، بڑھتے بھی چلو، بازو بھی بہت ہیں، سر بھی بہت

چلتے بھی چلو، کہ اب ڈیرے منزل ہی پہ ڈالے جائیں گے

اے ظلم کے ماتو لب کھولو، چپ رہنے والو چپ کب تک

کچھ حشر تو اِن سے اُٹھے گا۔ کچھ دور تو نالے جائیں گے

( فیض )

Domain Ownership

his Post confirms my ownership of the site and that this site adheres to Google Adsense program and terms and conditions .

اقبال تیرے دیس کا کیا حال سناؤں

ملتا ہے کہاں،خوشہ گندم کے جلاؤں

دہقان تو مر کھپ گیا، اب کس کو جگاؤں

شاہین کا ہے گنبدے شاہی پہ بسیرا

کنجشک فرو مایا کو اب کس سے لڑاؤں

اقبال تیرے دیس کا کیا حال سناؤں

ا قبال تیرے دیس کا کیا حال سناؤں

مکاری و عیاری و غداری و ہیجان

اب بنتا ہے ان چار عناصر سے مسلمان

قاری اسے کہا تو بڑی بات ہے یارو

اس نے تو کبھی کھول کے دیکھا نہیں قرآن

بیباکی و حق گوئی سے گھبراتا ہے مومن

مکاری و روباہی پہ اتراتا ہے مومن

جس رزق سے پرواز میں کوتاہی کا ڈر ہو

وہ رزق بڑے شوق سے کھاتا ہے مومن

شاہین کا جہاں ، آج ممولے کا جہاں ہے

ملتی ہوئی ملا سے مجاہد کی اذاں ہے

مانا کہ ستاروں سے بھی آگے ہیں جہاں او ر

شاہین میں مگر طاقت پرواز کہاں ہے؟

کردار کا، گفتار کا،اعمال کا مومن

قائل نہیں، ایسے کسی جنجال کا مومن

سرحد کا ہے مومن، کوئی بنگال کا مومن

ڈھونڈے سے بھی ملتا نہیں قرآن کا مومن

ہر داڑھی میں تنکا ہے، ہر آنکھ میں شہتیر

مومن کی نگاہوں سے اب بدلتی نہیں تقدیر

توحید کی تلواروں سے خالی ہیں نیامیں

اب ذوقِ یقین سے نہیں کٹتی،کوئی زنجیر

دیکھو تو ذرا محلوں کے پردوں کو اٹھا کر

شمشیر و سناں رکھی ہیں طاقوں میں سجا کر

آتے ہیں نظر مسند شاہی پہ رنگیلے

تقدیر امم سو گئی طاؤس پہ آکر

مرمر کی سلوں سے کوئی بے زار نہیں ہے

رہنے کو حرم میں کوئی تیار نہیں ہے

کہنے کو ہر شخص مسلمان ہے لیکن

دیکھو تو کہیں نام کو کردار نہیں ہے

محمودوں کی صف آج ایازوں سے پرے ہے

جمہور سے سلطانی جمہور ورے ہے

تھامے ہوئے دامن ہے، یہاں پر جوخودی کا

مر مر کے جئے کبھی جی جی کے مرے ہیں

پیدا کبھی ہوتی تھی سحر جس کی اذاں سے

اس بندہ مومن کو میں اب لاؤں کہاں سے

وہ سجدہ زمین جس سے لرز جاتی تھی یارو

اک بار ہم چھٹ گئے، اس بار گراں سے

اقبال تیرے دیس کا کیا حال سناؤں

ا قبال تیرے دیس کا کیا حال سناؤں

پاکستان آب و آتش میں

ہم تمھارے ساتھ ہیں

وہ جو دربدر خاک بسر ہوئے
وہ جو لٹ گئے، بے گھر ہوئے
وہ نہ مانگیں تم سے تمہارا گھر
نہ تمہارا سکھ نہ تمہارا در
وہ تو چاہتے ہیں عمر بھر
اپنی بستیوں میں گزر بسر
یہ کڑا وقت یہ سختیاں
ہے ہمارے رب کا یہ امتحاں
چلو قافلوں کو کرو رواں
جو مدد کرے وہ ہاتھ دو
آئو مل کے انکا ساتھ دو
کہ یہ اپنی دھرتی کے لوگ ہیں
انھیں زندگی کی سوغات دو
انھیں پھر سکھی حالات دو