Pages


صفدر ہمدانی

ہم پاک وطن کی گلیوں سے بازاروں سے شرمندہ ہیں
رونے والی ماؤں سے غمخواروں سے شرمندہ ہیں
خون کے چھینٹے جن پر ان دیواروں سے شرمندہ ہیں
اے ارض وطن سچ پوچھ ترے معماروں سے شرمندہ ہیں
شرمندہ ہیں اپنے وطن کی بیٹیوں،بہنوں ماؤں سے
شرمندہ ہیں شہروں،گلیوں،بازاروں سے گاؤں سے
شرمندہ ہم ہرے بھرے اشجار سے انکی چھاؤں سے
شرمندہ ہم روح سے اپنی،جسم سے،سر سے پاؤں سے
شرمندہ ہم آس،امید سے خون بھری آشاؤں سے
اے ارض وطن شرمندہ ہیں ہم تیرے گلوں سے گلشن سے
شرمندہ ہیں سرو و سمن سے کوہساروں کے دامن سے
شرمندہ ہیں گھر سے گھر کی چھت سے گھر کے آنگن سے
اے پاک وطن شرمندہ ہیں ہم بادل،بارش ساون سے
اے ارض وطن شرمندہ ہیں
اے پاک وطن شرمندہ ہیں
شرمندہ ہم خوشبو سے ہیں شرمندہ ہم پھول سے ہیں
مندر و مسجد سے شرمندہ ،شرمندہ اسکول سے ہیں
شرمندہ مٹی سے تیری سڑکوں کی اس دھول سے ہیں
لعنت تیرے ہر قاتل پر شرمندہ مقتول سے ہیں
یہ خود کش کس مٹی سے نکلے
کس بستی سے آئے ہیں
کس نے انکی فصل اگائی
کون انہیں یاں لائے ہیں
کون خدا کے بندوں کے ان قاتلوں کا رکھوالا ہے
کون ان خون رنگے ہاتھوں پہ بیعت کرنے والا ہے
کس نے میرے گھر آنگن میں ربا خون اچھالا ہے
کس نے ان سانپوں کو سائیں دودھ پلا کے پالا ہے
یہ کیسے ظالم قاتل ہیں
جو خود کو کلمہ گو کہتے ہیں،کلمہ گو کو مارتے ہیں
دن میں سو سو بار یہ اپنے سامنے خود ہی ہارتے ہیں
کس ظالم نے ہنستے بستے شہر مرے برباد کیئے
کس نے ہر اک شہر کے اجڑے قبرستاں آباد کیئے
کس نے پھول سے چہرے خون کے غازے سے ناشاد کیئے
کس نے یہ انسان کے دشمن خود کش سب آزاد کیئے
کس نے اپنی آگ ہمارے گھر میں آن لگائی ہے
کس نے خون کے دیئے جلا کر اپنی شام سجائی ہے
کس نے میرے دروازے پر موت کی شکل بنائی ہے
کس نے گل رخ بچوں کے دامن کو آگ دکھائی ہے
کس نے یہ بارود کی بارش دن دیوے برسائی ہے
کملی والے مدد کو آؤ حسن حسین دہائی ہے
اے ارض وطن شرمندہ ہیں
اے پاک وطن شرمندہ ہیں
شرمندہ ہیں ان سے جن کے گھر میں ماتم داری ہیں
شرمندہ ہیں ان سے جن کی گلیوں میں بیزاری ہے
شرمندہ ہر شخص سے جس نے جان کی بازی ہاری ہے
شرمندہ اس باپ سے جس نے اپنے کڑیل بیٹے کی
قبر میں لاش اتاری ہے
شرمندہ اس ماں سے جس کی آنکھوں سے خوں جاری ہے
شرمندہ بیٹے سے جس پر سانس بھی لینا بھاری ہے
شرمندہ اس بہن سے جسکی قسمت میں غمخواری ہے
شرمندہ اس بیٹی سے جو باپ سے کٹ کر زندہ ہے
شرمندہ اس قوم سے جو فرقوں میں بٹ کر زندہ ہے
شرمندہ ملت سے جو مرکز سے ہٹ کر زندہ ہے
شرمندہ ہیں پاک وطن ہم آنے والی نسلوں سے
شرمندہ ہیں کھیتوں سے کھلیانوں سےاور فصلوں سے
اے ارض وطن اب مجھ جیسے سب دیوانے
یہ سوچنے پر مجبور ہوئے
اس پاک وطن کے معماروں نے
جب خواب اک سچا دیکھا تھا
پھر ان ظالم جابر حاکموں نے
اس خواب کو کیوں تعبیر نہ دی
کیوں مفلس آج بھی مفلس ہے
کیوں اہلِ ہُنر غربت میں ہیں
کیوں صاحبِ عزت گُم سُم ہیں
کیوں دین فروش سکون میں ہیں
کیوں عالم پہ تنگ دستی ہے
کیونکر ہے جاہل تخت تشیں
کیوں راہنما سب ڈاکو ہیں
کیوں نفس کا مارا منصف ہے
کیوں عدل سے عاری عدالت ہے
کیوں قتل کے حق میں وکالت ہے
قرآن ہے کیوں پھر نیزے پر
دربار میں پھر سادات ہیں کیوں
اک بار میں پھر یہ پوچھتا ہوں
کس نے میرے دروازے پر موت کی شکل بنائی ہے
کس نے گل رخ بچوں کے دامن کو آگ دکھائی ہے
کس نے یہ بارود کی بارش دن دیوے برسائی ہے
کملی والے مدد کو آؤ حسن حسین دہائی ہے
اے ارض وطن شرمندہ ہیں
اے پاک وطن شرمندہ ہیں
ہم بیٹے بیٹیاں تیرے تجھ سے باندھ کے ہاتھ یہ پوچھتے ہیں
کس نے تیرے چاندی جیسے جسم پہ زخم لگائے ہیں
کس نے تیرے چاند ستارے مٹی میں دفنائے ہیں
کس نے تیرے معصوموں پرخود کُش تیر چلائے ہیں
کس نے آگ میں نفرت کی ترے روشن شہر جلائے ہیں
کس نے تیری عزت غیرت بیچ کے ظلم کمائے ہیں
کس نے تیرے پانی میں نفرت کا زہر ملایا ہے
کس نے تیری گلیوں میں بارود کا مینہہ برسایا ہے
کس نے تیری دھرتی کے سینے میں درد اگایا ہے
اے ارض وطن ہم مجرم ہیں
ہم تیری حفاظت کر نہ سکے
زندہ تو رہے ترے نام پہ ہم،ترے نام پہ لیکن مر نہ سکے
اے ارض وطن شرمندہ ہیں!
ہم پاک وطن کی گلیوں سے بازاروں سے شرمندہ ہیں

0 comments: