
دہقان تو مر کھپ گیا، اب کس کو جگاؤں
شاہین کا ہے گنبدے شاہی پہ بسیرا
کنجشک فرو مایا کو اب کس سے لڑاؤں
اقبال تیرے دیس کا کیا حال سناؤں
ا قبال تیرے دیس کا کیا حال سناؤں
مکاری و عیاری و غداری و ہیجان
اب بنتا ہے ان چار عناصر سے مسلمان
قاری اسے کہا تو بڑی بات ہے یارو
اس نے تو کبھی کھول کے دیکھا نہیں قرآن
بیباکی و حق گوئی سے گھبراتا ہے مومن
مکاری و روباہی پہ اتراتا ہے مومن
جس رزق سے پرواز میں کوتاہی کا ڈر ہو
وہ رزق بڑے شوق سے کھاتا ہے مومن
شاہین کا جہاں ، آج ممولے کا جہاں ہے
ملتی ہوئی ملا سے مجاہد کی اذاں ہے
مانا کہ ستاروں سے بھی آگے ہیں جہاں او ر
شاہین میں مگر طاقت پرواز کہاں ہے؟
کردار کا، گفتار کا،اعمال کا مومن
قائل نہیں، ایسے کسی جنجال کا مومن
سرحد کا ہے مومن، کوئی بنگال کا مومن
ڈھونڈے سے بھی ملتا نہیں قرآن کا مومن
ہر داڑھی میں تنکا ہے، ہر آنکھ میں شہتیر
مومن کی نگاہوں سے اب بدلتی نہیں تقدیر
توحید کی تلواروں سے خالی ہیں نیامیں
اب ذوقِ یقین سے نہیں کٹتی،کوئی زنجیر
دیکھو تو ذرا محلوں کے پردوں کو اٹھا کر
شمشیر و سناں رکھی ہیں طاقوں میں سجا کر
آتے ہیں نظر مسند شاہی پہ رنگیلے
تقدیر امم سو گئی طاؤس پہ آکر
مرمر کی سلوں سے کوئی بے زار نہیں ہے
رہنے کو حرم میں کوئی تیار نہیں ہے
کہنے کو ہر شخص مسلمان ہے لیکن
دیکھو تو کہیں نام کو کردار نہیں ہے
محمودوں کی صف آج ایازوں سے پرے ہے
جمہور سے سلطانی جمہور ورے ہے
تھامے ہوئے دامن ہے، یہاں پر جوخودی کا
مر مر کے جئے کبھی جی جی کے مرے ہیں
پیدا کبھی ہوتی تھی سحر جس کی اذاں سے
اس بندہ مومن کو میں اب لاؤں کہاں سے
وہ سجدہ زمین جس سے لرز جاتی تھی یارو
اقبال تیرے دیس کا کیا حال سناؤں
0 comments:
Post a Comment