ابرار الحق کی شاعری
یہ غازی ، یہ تیرے پراسرار بندے

جنھیں تو نے بخشا ہے ذوق خدائی
دو نیم ان کی ٹھوکر سے صحرا و دریا
سمٹ کر پہاڑ ان کی ہیبت سے رائی
دو عالم سے کرتی ہے بیگانہ دل کو
عجب چیز ہے لذت آشنائی
شہادت ہے مطلوب و مقصود مومن
نہ مال غنیمت نہ کشور کشائی
خیاباں میں ہے منتظر لالہ کب سے
قبا چاہیے اس کو خون عرب سے
کیا تو نے صحرا نشینوں کو یکتا
خبر میں ، نظر میں ، اذان سحر میں
طلب جس کی صدیوں سے تھی زندگی کو
وہ سوز اس نے پایا انھی کے جگر میں
کشاد در دل سمجھتے ہیں اس کو
ہلاکت نہیں موت ان کی نظر میں
دل مرد مومن میں پھر زندہ کر دے
وہ بجلی کہ تھی نعرۂ لاتذر ، میں
عزائم کو سینوں میں بیدار کردے
نگاہ مسلماں کو تلوار کردے
وطن کی مٹی

وطن کی مٹی ۔۔۔۔۔ بجا کہ گلزار ِ زندگی کا
ہر ایک غنچہ دریدہ داماں ، لہو لہو ہے
چلن خزاں کی شقاوتوں کا ، ہلاکتوں کا
... ہے قریہ قریہ تو کُو بہ کُو ہے
ہر ایک ٹہنی ہے نخل ِ جاں کی ۔۔۔ ستم رسیدہ
۔۔۔۔۔ الم گزیدہ
وطن کی مٹی ۔۔۔۔۔ گواہ رہنا
کہ یہ حقیقت ہے ، یہ ہی سچ ہے
روش روش پہ جو مثل ِ لالہ دمک رہا ہے
حیات ِ نو کے دلوں کی دھڑکن ، نوید ِ عہد ِ جدید بن کر
جو تیرے ذروں میں ، تن بدن میں جذب ہوا ہے
وہ تیرے جانبازوں ، جاں نثاروں
تیرے سپوتوں تیرے شہیدوں کا
بے بہا ، جاں فزاء لہو ہے
وطن کی مٹی ۔۔۔۔۔
اسی لہو کی طراوتوں سے ، تمازتوں سے
بطن ِ گیتی میں اک نیا دور پَل رہا ہے
یہی لہو ظلمت ِ شب ِ غم کے وقت ِ آخر
افق افق پہ شفق کی لالی میں ڈھل رہا ہے
اسی لہو سے ، ستم کی آندھی میں بھی فروزاں
ہر اک نفس میں چراغ ِ اُمید جل رہا ہے
وطن کی مٹی ۔۔۔۔۔ یقین رکھنا
کہیں جہاں میں ، خزاں کی رُت دائمی نہیں ہے
ستم کی کالی سیاہ راتیں ، طویل بھی ہوں
تو ان کا ڈھلنا
رُتیں بدلنا ۔۔۔۔۔ نسیم ِ صبح ِ بہار چلنا
یہ دین ِ فطرت ہے ، عین ِ حق ہے
یہ بالیقیں ہے
یقین رکھنا ۔۔۔۔۔ شب ِ ستم کا ، عذاب رُت کا
یہ بالیقیں دور ِ آخریں ہے
( انشااللہ )

سندھ میں خون بہایا تھا
پھر بن قاسم اک مرد جواں
اللہ کے حکم سے آیا تھا
آج
آج سندھ میں کتنی عصمتیں ہیں
جو گردِ ہوا بن جاتی ہیں
اور کتنی مائیں روتے روتے
خود ہی چپ کر جاتی ہیں
اس رب کو کیا بتلائیں گے ہم؟
یہ قوم غیور تو اب تک ہے
کوئی ابنِ قاسم کیوں نہ رہا؟
وہ اندلس کے میدانوں میں
تلوارِ طارق چمکی تھی
پھر آن کے آن ،کتنے برس
اللہ کی رحمت برسی تھی
پھر نوچ کے کھاگئے عیسائی
اور مسجد ،ممبر کچھ نہ رہا
نہ اللہ اکبر کی صدا ٓئی
اس رب کو کیا بتلائیں گے ہم؟
کوئی طارق جیسا کیوں نہ رہا؟
جسکی نہ کوئی صبح ہو
عراق میں ایسی شام ڈھلی
ایماں کے رکھوالے سینوں پر
کفر و عناد کی تلوار چلی
جو انگلیاں تسبیح کرتی تھیں
وہ تن سے جدا کر ڈالی گئیں
اس رب کو کیا بتلائیں گے ہم؟
وہ مومن یا ایماں والے
اس ارضِ وسیع پر کیوں نہ رہے؟
افغانستان میں سسکیوں کا
اک اور نیا سیلاب اٹھا
آنسو لہو کے قطرے تھے
دل آگ کے شعلے پر تھا جلا
ہر اک منزل، ہر ہررستہ
ہرہر چادر، ہر ہر پردہ
گھر کوئی سلامت ہی نہ رہا
"ہم نے تو کہا تھا اے مالک !
تجھے کبھی نہ روٹھنے دیں گے ہم
یہ جان یہ تن لگائیں گے
گر روٹھ گیا تو منائیں گے"
کل پہلی رات کے کتنے چاند
گہر ی نیند سلاڈالے
ہر ہر تارا اندھیرے میں
کتنے چراغ بجھا ڈالے
کوئی کرچی بھی باقی نہ رہی
ہزاروں دیئے گرا ڈالے
غزہ کی چار دیواری میں
ڈھیروں!!!معصوم مروا ڈالے
جو رات قبر میں آنی ہے ،
وہ رات قبر میں آنی ہے
پھر دن کے اتنے پہروں میں
ہم بار ہا قبر میں کیوں جائیں؟؟؟
"جب پھوٹ پڑے تو یہی مومن
زرہ زرہ، قطرہ قطرہ
گر مل جائے تو طوفان میں بھی
چٹان ہے یہ واللہ واللہ"
پھر اب کیوں زرہ زرہ بن کر
ہوا کے سپرد ہو جائیں ہم
چلو اپنی عصمت بچائیں ہم
اور اپنے گھر کی رکھوالی میں
چلو متحد ہوجائیں ہم
اور
اپنے رب کو منائیں ہم
"اشکوں کے زخیرے لٹا ڈالیں
یہ جان یہ تن لگا ڈ ا لیں
چلو اپنے رب کو مناڈالیں

ہم پاک وطن کی گلیوں سے بازاروں سے شرمندہ ہیں
رونے والی ماؤں سے غمخواروں سے شرمندہ ہیں
خون کے چھینٹے جن پر ان دیواروں سے شرمندہ ہیں
اے ارض وطن سچ پوچھ ترے معماروں سے شرمندہ ہیں
شرمندہ ہیں اپنے وطن کی بیٹیوں،بہنوں ماؤں سے
شرمندہ ہیں شہروں،گلیوں،بازاروں سے گاؤں سے
شرمندہ ہم ہرے بھرے اشجار سے انکی چھاؤں سے
شرمندہ ہم روح سے اپنی،جسم سے،سر سے پاؤں سے
شرمندہ ہم آس،امید سے خون بھری آشاؤں سے
اے ارض وطن شرمندہ ہیں ہم تیرے گلوں سے گلشن سے
شرمندہ ہیں سرو و سمن سے کوہساروں کے دامن سے
شرمندہ ہیں گھر سے گھر کی چھت سے گھر کے آنگن سے
اے پاک وطن شرمندہ ہیں ہم بادل،بارش ساون سے
اے ارض وطن شرمندہ ہیں
اے پاک وطن شرمندہ ہیں
شرمندہ ہم خوشبو سے ہیں شرمندہ ہم پھول سے ہیں
مندر و مسجد سے شرمندہ ،شرمندہ اسکول سے ہیں
شرمندہ مٹی سے تیری سڑکوں کی اس دھول سے ہیں
لعنت تیرے ہر قاتل پر شرمندہ مقتول سے ہیں
یہ خود کش کس مٹی سے نکلے
کس بستی سے آئے ہیں
کس نے انکی فصل اگائی
کون انہیں یاں لائے ہیں
کون خدا کے بندوں کے ان قاتلوں کا رکھوالا ہے
کون ان خون رنگے ہاتھوں پہ بیعت کرنے والا ہے
کس نے میرے گھر آنگن میں ربا خون اچھالا ہے
کس نے ان سانپوں کو سائیں دودھ پلا کے پالا ہے
یہ کیسے ظالم قاتل ہیں
جو خود کو کلمہ گو کہتے ہیں،کلمہ گو کو مارتے ہیں
دن میں سو سو بار یہ اپنے سامنے خود ہی ہارتے ہیں
کس ظالم نے ہنستے بستے شہر مرے برباد کیئے
کس نے ہر اک شہر کے اجڑے قبرستاں آباد کیئے
کس نے پھول سے چہرے خون کے غازے سے ناشاد کیئے
کس نے یہ انسان کے دشمن خود کش سب آزاد کیئے
کس نے اپنی آگ ہمارے گھر میں آن لگائی ہے
کس نے خون کے دیئے جلا کر اپنی شام سجائی ہے
کس نے میرے دروازے پر موت کی شکل بنائی ہے
کس نے گل رخ بچوں کے دامن کو آگ دکھائی ہے
کس نے یہ بارود کی بارش دن دیوے برسائی ہے
کملی والے مدد کو آؤ حسن حسین دہائی ہے
اے ارض وطن شرمندہ ہیں
اے پاک وطن شرمندہ ہیں
شرمندہ ہیں ان سے جن کے گھر میں ماتم داری ہیں
شرمندہ ہیں ان سے جن کی گلیوں میں بیزاری ہے
شرمندہ ہر شخص سے جس نے جان کی بازی ہاری ہے
شرمندہ اس باپ سے جس نے اپنے کڑیل بیٹے کی
قبر میں لاش اتاری ہے
شرمندہ اس ماں سے جس کی آنکھوں سے خوں جاری ہے
شرمندہ بیٹے سے جس پر سانس بھی لینا بھاری ہے
شرمندہ اس بہن سے جسکی قسمت میں غمخواری ہے
شرمندہ اس بیٹی سے جو باپ سے کٹ کر زندہ ہے
شرمندہ اس قوم سے جو فرقوں میں بٹ کر زندہ ہے
شرمندہ ملت سے جو مرکز سے ہٹ کر زندہ ہے
شرمندہ ہیں پاک وطن ہم آنے والی نسلوں سے
شرمندہ ہیں کھیتوں سے کھلیانوں سےاور فصلوں سے
اے ارض وطن اب مجھ جیسے سب دیوانے
یہ سوچنے پر مجبور ہوئے
اس پاک وطن کے معماروں نے
جب خواب اک سچا دیکھا تھا
پھر ان ظالم جابر حاکموں نے
اس خواب کو کیوں تعبیر نہ دی
کیوں مفلس آج بھی مفلس ہے
کیوں اہلِ ہُنر غربت میں ہیں
کیوں صاحبِ عزت گُم سُم ہیں
کیوں دین فروش سکون میں ہیں
کیوں عالم پہ تنگ دستی ہے
کیونکر ہے جاہل تخت تشیں
کیوں راہنما سب ڈاکو ہیں
کیوں نفس کا مارا منصف ہے
کیوں عدل سے عاری عدالت ہے
کیوں قتل کے حق میں وکالت ہے
قرآن ہے کیوں پھر نیزے پر
دربار میں پھر سادات ہیں کیوں
اک بار میں پھر یہ پوچھتا ہوں
کس نے میرے دروازے پر موت کی شکل بنائی ہے
کس نے گل رخ بچوں کے دامن کو آگ دکھائی ہے
کس نے یہ بارود کی بارش دن دیوے برسائی ہے
کملی والے مدد کو آؤ حسن حسین دہائی ہے
اے ارض وطن شرمندہ ہیں
اے پاک وطن شرمندہ ہیں
ہم بیٹے بیٹیاں تیرے تجھ سے باندھ کے ہاتھ یہ پوچھتے ہیں
کس نے تیرے چاندی جیسے جسم پہ زخم لگائے ہیں
کس نے تیرے چاند ستارے مٹی میں دفنائے ہیں
کس نے تیرے معصوموں پرخود کُش تیر چلائے ہیں
کس نے آگ میں نفرت کی ترے روشن شہر جلائے ہیں
کس نے تیری عزت غیرت بیچ کے ظلم کمائے ہیں
کس نے تیرے پانی میں نفرت کا زہر ملایا ہے
کس نے تیری گلیوں میں بارود کا مینہہ برسایا ہے
کس نے تیری دھرتی کے سینے میں درد اگایا ہے
اے ارض وطن ہم مجرم ہیں
ہم تیری حفاظت کر نہ سکے
زندہ تو رہے ترے نام پہ ہم،ترے نام پہ لیکن مر نہ سکے
اے ارض وطن شرمندہ ہیں!
ہم پاک وطن کی گلیوں سے بازاروں سے شرمندہ ہیں
اے خاک نشینو اٹھ بیٹھو، وہ وقت قریب آ پہنچا ہے

کچھ اپنی سزا کو پہنچیں گے ، کچھ اپنی جزا لے جائیں گے
اے خاک نشینو اٹھ بیٹھو، وہ وقت قریب آ پہنچا ہے
جب تخت گرائے جائیں گے، جب تاج اچھالے جائیں گے
اب ٹوٹ گریں گی زنجیریں اب زندانوں کی خیر نہیں
جو دریا جھوم کے اُٹھے ہیں، تنکوں سے نہ ٹالے جائیں گے
کٹتے بھی چلو، بڑھتے بھی چلو، بازو بھی بہت ہیں، سر بھی بہت
چلتے بھی چلو، کہ اب ڈیرے منزل ہی پہ ڈالے جائیں گے
اے ظلم کے ماتو لب کھولو، چپ رہنے والو چپ کب تک
کچھ حشر تو اِن سے اُٹھے گا۔ کچھ دور تو نالے جائیں گے
( فیض )
Domain Ownership
اقبال تیرے دیس کا کیا حال سناؤں

دہقان تو مر کھپ گیا، اب کس کو جگاؤں
شاہین کا ہے گنبدے شاہی پہ بسیرا
کنجشک فرو مایا کو اب کس سے لڑاؤں
اقبال تیرے دیس کا کیا حال سناؤں
ا قبال تیرے دیس کا کیا حال سناؤں
مکاری و عیاری و غداری و ہیجان
اب بنتا ہے ان چار عناصر سے مسلمان
قاری اسے کہا تو بڑی بات ہے یارو
اس نے تو کبھی کھول کے دیکھا نہیں قرآن
بیباکی و حق گوئی سے گھبراتا ہے مومن
مکاری و روباہی پہ اتراتا ہے مومن
جس رزق سے پرواز میں کوتاہی کا ڈر ہو
وہ رزق بڑے شوق سے کھاتا ہے مومن
شاہین کا جہاں ، آج ممولے کا جہاں ہے
ملتی ہوئی ملا سے مجاہد کی اذاں ہے
مانا کہ ستاروں سے بھی آگے ہیں جہاں او ر
شاہین میں مگر طاقت پرواز کہاں ہے؟
کردار کا، گفتار کا،اعمال کا مومن
قائل نہیں، ایسے کسی جنجال کا مومن
سرحد کا ہے مومن، کوئی بنگال کا مومن
ڈھونڈے سے بھی ملتا نہیں قرآن کا مومن
ہر داڑھی میں تنکا ہے، ہر آنکھ میں شہتیر
مومن کی نگاہوں سے اب بدلتی نہیں تقدیر
توحید کی تلواروں سے خالی ہیں نیامیں
اب ذوقِ یقین سے نہیں کٹتی،کوئی زنجیر
دیکھو تو ذرا محلوں کے پردوں کو اٹھا کر
شمشیر و سناں رکھی ہیں طاقوں میں سجا کر
آتے ہیں نظر مسند شاہی پہ رنگیلے
تقدیر امم سو گئی طاؤس پہ آکر
مرمر کی سلوں سے کوئی بے زار نہیں ہے
رہنے کو حرم میں کوئی تیار نہیں ہے
کہنے کو ہر شخص مسلمان ہے لیکن
دیکھو تو کہیں نام کو کردار نہیں ہے
محمودوں کی صف آج ایازوں سے پرے ہے
جمہور سے سلطانی جمہور ورے ہے
تھامے ہوئے دامن ہے، یہاں پر جوخودی کا
مر مر کے جئے کبھی جی جی کے مرے ہیں
پیدا کبھی ہوتی تھی سحر جس کی اذاں سے
اس بندہ مومن کو میں اب لاؤں کہاں سے
وہ سجدہ زمین جس سے لرز جاتی تھی یارو
اقبال تیرے دیس کا کیا حال سناؤں
ہم تمھارے ساتھ ہیں

وہ جو لٹ گئے، بے گھر ہوئے
وہ نہ مانگیں تم سے تمہارا گھر
نہ تمہارا سکھ نہ تمہارا در
وہ تو چاہتے ہیں عمر بھر
اپنی بستیوں میں گزر بسر
یہ کڑا وقت یہ سختیاں
ہے ہمارے رب کا یہ امتحاں
چلو قافلوں کو کرو رواں
جو مدد کرے وہ ہاتھ دو
آئو مل کے انکا ساتھ دو
کہ یہ اپنی دھرتی کے لوگ ہیں
انھیں زندگی کی سوغات دو
انھیں پھر سکھی حالات دو
یہ مُلاؤں کی بستی ہے
جسِے چاہیں کہدیں کافر ہے
جسِے چاہیں کہدیں مُرتد ہے
یہ بنِا جَرح اور بِنِا گواہی
جسِے چاہیں کریں سَنگسار
مُلاؤں کی اِس بستی میں
کوئی لال ہے، کوئی پیلی ہے
ہے کالی اور کوئی نیلی ہے
جو ڈیڑھ اینٹ کی مسجد ہے
وہ کل نہیں بس آج بنی ہے
اس بستی کی ہر نُکڑ پے
ہے بَارِ زندگی گراں، اور
موت کی بازی سستی ہے
یہ مُلاؤں کی بستی ہے
اے قائد اعظم ؟

ملک کو برباد کر کے بھی ھم شرمندہ نہیں ھیں
احساس آزادی کا رھا ھے نہ دل میں ،
محبت بھی تمہا ری مر گئ دل میں ،
صرف اپنی محبت زندہ ھے اب توھم میں ،
وطن کی قدر تو پاتال میں جا چھپائی ھم نے،
کسی کا دکھ اب ھمارا نہیں بنتا ،
کسی کا بیٹا اب ھمیں اپنا نہیں دکھتا ،
تکلیف نہیں پہنچتی کسی کی بیٹی کو تڑپاکر،
دل نہیں روتا کسی کی ماں کا آنسو دیکھ کر،
خوشبو رھے صرف ھم تک ،
اسی میں جان کھپا دیتے ھیں،
دولت رھے ھمیں تک ،
اس میں دین بُھلا دیتے ھیں ۔ ،
عروج
اے مری ارضِ وطن

اے مری ارضِ وطن ، پھر تری دہلیز پہ میں
یوں نگوں سار کھڑا ہوں کوئی مجرم جیسے
آنکھ بے شک ہے برسے ہُوئے بادل کی طرح
ذہن بے رنگ ہے اُجڑا ہُوا موسم جیسے
سانس لیتے ہُوئے اس طرح لرز جاتا ہوں
اپنے ہی ظلم سے کانپ اُٹھتا ہے ظالم جیسے
تُو نےبخشا تھا مرے فن کو وہ اعجاز کہ جو
سنگِ خار کو دھڑکنے کی ادا دیتا ہے
تُو نے وہ سحر مرے حرفِ نوا کو بخشا
جو دل قطرہ میں قلزم کو چُھپا دیتا ہے
اور میں مستِ مَے رامش و رنگِ ہستی
اتنا بے حس تھا کہ جیسے کسی قاتل کا ضمیر
یہ قلم تیری امانت تھا مگر کس کو ملا؟
جو لُٹا دیتا ہے نشے میں سلف کی جاگیر
جیسے میزانِ عدالت کسی کج فہم کے پاس
جیسے دیوانے کے ہاتھوں میں برہنہ شمشیر
تجھ پہ ظلمات کی گھنگھور گھٹا چھائی تھی
اور میں چُپ تھا کہ روشن ہے مرے گھر کا چراغ
تیرے میخانے پہ کیا کیا نہ قیامت ٹوٹی
اور میں خوش تھا سلامت ہے ابھی میرا ایاغ
میں نے اپنے ہی گہنگار بدن کو چُوما
گرچہ جویائے محبت تھے ترے جسم کے داغ
حجلۂ ذات میں آئینے جڑے تھے اتنے
کہ میں مجبور تھا گر محوِ خود آرائی تھا
تیری روتی ہوئی مٹّی پہ نظر کیا جمتی
کہ میں ہنستے ہُوئے جلوؤں کا تمنّائی تھا
ایک پل آنکھ اُٹھائی بھی اگر تیری طرف
میں بھی اوروں کی طرح صرف تماشائی تھا
اور اب خواب سے چونکا ہوں تو کیا دیکھتا ہوں
ایک اِک حرف مرا تیرِ ملامت ہے مجھے
تُو اگر ہے تو مرا فن بھی مری ذات بھی ہے
ورنہ یہ شامِ طرب صبحِ قیامت ہے مجھے
میری آواز کے دُکھ سے مجھے پہچان ذرا
میں تو کہہ بھی نہ سکوں کتنی ندامت ہے مجھے
آج سے میرا ہُنر پھر سے اثاثہ ہے ترا
اپنے افکار کی نس نس میں اُتاروں گا تجھے
وہ بھی شاعر تھا کہ جس نے تجھے تخلیق کیا
میں بھی شاعر ہوں تو خوں دے کے سنواروں گا تجھے
اے مری ارضِ وطن اے مری جاں اے مرے فن
جب تلک تابِ تکّلم ہے پکاروں گا تجھے
احمد فراز
رمضان مبارک
ادھورا خواب

سبھی آپنے يہاں ھونگے يہاں کوي غير نہ ھو گا
کھليں گے پھول سرسوں کے گلی کوچہ چمن ھو گا
اٹھيں گی جس طرف نظريں اسی جانب امن ھو گا
حقیقت خواب تھا میرا مگر تعبیر نہ نکلی
چنا نسخہ حکیموں کا مگر تاثیر نہ نکلی
میدان چنگ اترنا تھا مجھے انصاف کی خاطر
گلا دیکھا جو اپنوں کا میری شمشیر نہ نکلی
وطن چھوڑا فرھنگی نے تو ھاتھ آیا وڈیروں کے
وطن لوٹا بے رحمی سے یہ بیٹے تھے لٹیروں کے
بناھیں اپنی جاگیریں خزانہ قوم کا لوٹا
کیا مقروض ملت کو دھیے طحفے اندھیرون کے
کڑکتی دھوپ نے مارا کبھی اولے گرے مجھ پر
کبھی مارے گیے کوڑے کبھی گولے گرے مجھ پر
کبھی جرنیل کا تھپڑ کبھی جج کی پڑی گالی
سویا میں کبھی بھوکا کبھی کچھ مانگ کی کھا لی
میں محنت کش- میں دھقاں ھوں مجھےانصاف دلوا دو
میرا جینا ھوا مشکل مجھے کچھ آس دلوا دو
کمشنر جج اور جرنل بنے ھو بوجھ ملت پر
میری محنت کی اجرت تم مجھے کچھ راس دلوا دو
نظام عمرلانا تھا توتم نے- کیوں نہیں لآیا
میں ترسوں دال روٹی کو تیرا کیوں - باھر سرمایا
یہ کیسا ملک اسلامی یہ کیوں کر- جھوٹ کےنعرے
صداے حق کہنے سے ھر کوی باز کیوں آیا
غریب تو رمضان گزارے گا منائے گا نہیں!

رمضان مبارک

اپنی باری کا انتظار کرو،
سر جھُکا کے جنازوں میں شرکت کرو،
نہ احتجاج کرو نہ کُچھ تیاری کرو،
اپنی باری کا انتظار کرو،
حکومت کے آسرے میں رہو،
سیاسی پارٹی میں شمولیت کرو،
اپنی باری کا انتظار کرو،
آپس میں جھگڑا کرو، دُشمن کو مظبوط کرو،
اپنے گھر بچا کے رکھو کربلا نیلام کرو،
اپنی باری کا انتظار کرو،
نہ آپس میں اتحاد کرو، نہ قوم کیلئے سر جوڑ کے بیٹھو،
نہ اسلام کی پروہ کرو، بس جنازوں میں شرکت کرو،
اپنی باری کا انتظار کرو
رات کیوں ہو گئی

میرے شہروں کو کس کی نظر لگ گئی
میری گلیوں کی رونق کہاں کھو گئی
روشنی بجھ گئی‘ آگہی سو گئی
ہم تو نکلے تھے ہاتھوں میں سورج لیے
رات کیوں ہو گئی
رات کیوں ہو گئی
طالبانِ سحر
ہم سے کیوں روشنی نے یہ پردہ کیا
کیوں اندھیروں نے رستوں پہ سایہ کیا
آؤ سوچیں ذرا
ہم بھی سوچیں ذرا تم بھی سوچو ذرا
پرچمِ روشنی کس طرح پھٹ گیا؟
کون سا موڑ ہم سے غلط کٹ گیا؟
پھول رت میں خزاں
کس طرح چھا گئی؟
بیج کیا بو گئی؟
ہم تو نکلے تھے ہاتھوں میں سورج لیے
رات کیوں ہو گئی؟؟
خدا کرے میری ارض پاک پر اترے

خدا کرے میری ارض پاک پر اترے
وہ فصلِ گل جسے اندیشہء زوال نہ ہو
یہاں جو پھول کھلے وہ کِھلا رہے برسوں
یہاں خزاں کو گزرنے کی بھی مجال نہ ہو
یہاں جو سبزہ اُگے وہ ہمیشہ سبز رہے
اور ایسا سبز کہ جس کی کوئی مثال نہ ہو
گھنی گھٹائیں یہاں ایسی بارشیں برسائیں
کہ پتھروں کو بھی روئیدگی محال نہ ہو
خدا کرے نہ کبھی خم سرِ وقارِ وطن
اور اس کے حسن کو تشویش ماہ و سال نہ ہو
ہر ایک فرد ہو تہذیب و فن کا اوجِ کمال
کوئی ملول نہ ہو کوئی خستہ حال نہ ہو
خدا کرے کہ میرے اک بھی ہم وطن کے لیے
حیات جرم نہ ہو زندگی وبال نہ ہو
یہ وزیرانِ کرام
کوئی ممنونِ فرنگی، کوئی ڈالر کا غلام
دھڑکنیں محکوم ان کی لب پہ آزادی کا نام
ان کو کیا معلوم کس عالم میں رہتے ہیں عوام
یہ وزیرانِ کرام
ان کو فرصت ہے بہت اونچے امیروں کے لیے
ان کے ٹیلیفون قائم ہیں سفیروں کے لیے
وقت ان کے پاس کب ہے ہم فقیروں کے لیے
چھو نہیں سکتے ہم ان کا اونچا مقام
یہ وزیرانِ کرام
صبح چائے ہے یہاں تو شام کھانا ہے وہاں
کیوں نہ مغرور چلتی ہے میاں ان کی دکاں
جب یہ چاہیں ریڈیو پہ جھاڑسکتے ہیں بیاں
ہم ہیں پیدل، کار پہ یہ، کس طرح ہوں ہم کلام
یہ وزیرانِ کرام
قوم کی خاطر اسمبلی میں یہ مر بھی جاتے ہیں
قوت بازو سے اپنی بات منواتے بھی ہیں
گالیاں دیتے بھی ہیں اور گالیاں کھاتے بھی ہیں
یہ وطن کی آبروں ہیں کیجیے ان کو سلام
یہ وزیرانِ کرام
ان کی محبوبہ وزارت داشتائیں کرسیاں
جان جاتی ہے تو جائے پر نہ جائیں کرسیاں
دیکھئے یہ کب تلک یوں ہی چلائیں کرسیاں
عارضی ان کی حکومت عارضی ان کا قیام
یہ وزیرانِ کرام
ہمارے لیڈر
زمانے بھر کے لٹیرے ہمارے لیڈر ہیں
جبھی تو سامنے اغیار کے یہ گیڈر ہیں
قصور ان کا نہیں ، یہ قصور اپنا ہے
ہمارے ووٹوں کے انبار سے یہ نڈر ہیں
...یہ سب بکے ہووے غدّار اس وطن کے ہیں
اپنے آقاؤں کے ہر حکم یہ.....یہ چلتے ہیں
انہیں پتہ ہی نہیں ، شرم کس کو کہتے ہیں
یہ سب یزید کے .....اہل و عیال لگتے ہیں
یہ دھن کے پجاری ........ سبھی لٹیرے ہیں
ہمارے خون سے روشن یہ مکروہ چہرے ہیں
انہیں ادراک تیرے .......انقلاب وقت کا نہیں
کے انکی آنکھوں پہ اب تک سیاہ پردے ہیں
ذرا جو ہوش سے دیکھو کے کون ہے دشمن
یہ دیکھو کون ہے ظلمت کے آسماں پہ مگن
ہر اک ادارہ مجھے لوٹ کا...... بازار لگے
مگر یہ بجلی کا دفتر ہے سب سے شعلہ فگن
اس ارض پاک کے بچے ہمارے رہبر ہیں
انہی کے دم سے ....ہماری امیدیں نیر ہیں
انہی کے واسطے گلشن میں پھول عنبر ہیں
یہی ہمارے وطن کے ......عظیم ممبر ہیں
سنو اے ارض وطن ہم بھی تیرے بچے ہیں
ذرا سی دیر ہے، لیکن عمل میں سچے ہیں
ہماری قوم میں کمزوریاں بہت ہیں مگر
اگر ہم جاگ اٹھیں ! تو غضب جھپٹتے ہیں
میں شرمندہ ہوں
میں شرمندہ ہوں اپنے آپ سے، کے میں اس قابل نہیں کے اپنی قوم کے لئے کچھ کر سکوں
لیکن کم سے کم لکھ تو سکتا ہوں؟
اس قوم کو مسلسل لوٹا جا رہا ہے، اور قوم ہے کے لٹے جا رہی ہے، پتہ نہیں کس مٹی سے بنایا تھا ہم کو خدا نے؟
...بجلی کے محکمہ نے مسلسل لوٹ مار کا بازار گرم کر رکھا ہے، لیکن ہم ہیں کے کسی طرح بھی اس کو لگام نہیں ڈالتے.
جب حکومت خود اس لوٹ مار میں ملوث ہو گی تو کیا ہو گا.... یہی کے عوام خود فیصلہ کریں کے کیا کرنا ہے... اور
وہ وقت اب کب آے گا جب عوام یہ فیصلہ کرے گی.... خدا کے لئے... تم لوگ جو کچھ کماتے ہو وہ آدھے سے زیادہ تو اس
بجلی کے محکمہ کو چلا جاتا ہے تو پھر تماہرے بچوں کا مستقبل کیا ہے؟
بجلی بھی نہ ہو، اور بل ہے کے اتنا ہی چلا آتا ہے جیسے چوبیس گھنٹے ائر کنڈیشن چلا رہے تھے... خدا کے لئے
یہ سب کمینگی کی انتہاء کو پہونچ چکے ہیں.... اب ہمیں کیا کرنا ہے....میں بتاتا ہوں......بس
تھوڑی سی ہمّت .... صرف ایک دن کے لئے.... کسی ہرتال کی ضرورت نہیں، کسی جلوس کی ضرورت نہیں...کسی
احتجاج کی ضرورت نہیں.... صرف اتنا کیجیے کے اپنے اپنے میٹر نکالئے اور سامنے گھر کے میداں میں میں سب رکھ دیں اور ٹی وی چینل کو فون کر دیں .....صرف
ایک دن کے اس عمل سے آپ خود دیکھیں گے کے، بجلی والے آپ کے پروں میں پڑے ہوں گے.... اور پھر
آپ ان سے اپنے ریٹ پے بجلی لیجیے گا.... اگر ایسا نہ ہو تو آپ مجھے بیچ چوراہے پہ گولی مار دیجیے گا....... یقین کیجیے یہ ظلم اس لئے ہے کے ہم خاموش ہیں
کسی لیڈر نے آواز اس انداز سے نہیں اٹھائی کے مسلہ ھل ہو.... یہ سب سیاست کے لئے ہمیں اور آپ کو استمعال کر رہے ہیں....
ہر آدمی اپنے اپنے علاقے میں گروپ بناہے اور میٹر نکال کر پھینکے..... نہ ہو گا میٹر نہ
آے گا بل....
اور اگر پھر بھی بل آے بجلی کا پہ بل ادا کرنے کا کوئی قانونی جواز نہیں......بس سب سے پہلا کام لوگوں کو متحرک کریئے
یہ کوئی غیر قانونی کام نہیں..... ہمارا حق ہے، کے بجلی ہم مناسب داموں پہ خریدیں جیسے ہم دوسری چیزیں خریدتتے ہیں.
ہماری مرضی
ہمیں مہنگی بجلی نہیں چاہیئے بس........اتنا ہی کافی ہے...اور
ویسے بھی بجلی ہوتی کہاں ہے.....جب بل آتا ہے تو پتہ چلتا ہے کے اچھا ہم بجلی بھی استمعال کرتے ہیں
یہ کام شروع ہونا چاہیئے فلیٹ سیسٹم سے وہاں سے یہ کام آسانی سے شروع ہو سکتا ہے..... وہاں یونین ہوتیں ہیں، وہاں آسانی سے لوگ یہ کام کر سکتے ہیں...اور ہاں ٹی وی چینلس کو ضرور فون کرا جائے تا کے میڈیا کوویرج ملے... اور دنیا کو پتہ چلے......صرف ایک دن کے لئے ہمّت کرنے کی ضرورت ہے.....
ہم تم اس شہر کے باسی ہیں



…جو سکھ کی سانس لیتے ہوں
…وہاں ہر دن خوشی کا ہوتا ہے
…ہر رات دیوالی منتی ہے
…ہم تم اس شہر کےباسی ہیں
…جہاں آنگن سونے ملتے ہیں
…جہاں ہر ماں بین کرتی ہے
… ہر دن جنازے اٹھتے ہیں
کیوں نام نصب پر لڑتے ہو…؟
کیا مسلمان ہونا پہچان نہیں…؟
تم کس بقاء کی جنگ لڑتے ہو..؟
گر کوئ رہا باقی نہیں…؟
…میرے رب نے تو ایک پہچان تھی دی
…کہا ایک نبی (ص) کی امت ہو
پھر امت نے تفریق کیوں کی…؟
کیا ذات مزہب سے بڑھ کر تھی…؟
!…بس بہت ہوا اب بس کرو
…اس جنگ سے کچھ حاصل نہیں
…یہ خون کی ہولی بند کرو
..بہت دیر نہ ہو جائے کہیں
By Tooba Hatif
نہیں ایسا نہیں ہونے دینا-احمد فراز
اب میرے دوسرے بازو پہ وہ شمشیر ہے جو !
اس سے پہلے بھی میرا نصف بدن کاٹ چکی ہے
اسی بندوق کی نالی ہے میری سمت کہ جو !
اس سے پہلے بھی میری شہہ رگ کا لہو چاٹ چکی ہے
پھر وہی آگ در آئی ہے میری گلیوں میں !
پھر میرے شہر میں بارود کی بو پھیلی ہے
پھر سے تو کون ، میں کون ہوں ؟ آپس میں سوال
پھر وہی سوچ میان و من تو پھیلی ہے
میرے بستی سے پرے بھی میرے دشمن ہوں گے
پر یہاں کب کسی اغیار کا لشکر اترا
آشنا ہاتھ ہی اکثر میری جانب لپکے !
میرے سینے میں صدا اپنا ہی خنجر اترا
پھر وہی خوف کی دیوار، تذبذب کی فضاء
پھر ہوئیں عام وہی اہل ریا کی باتیں
نعرہ حب وطن مال تجارت کی طرح
جنسِ ارزاں کی طرح خدا کی باتیں
اس سے پہلے بھی تو ایسی ہی گھڑی آئی تھی
صبح وحژت کی طرح ، شامِ غریباں کی طرح
اس سے پہلے بھی تو پیمان وفا ٹوٹے تھے
شیشہء دل کی طرح ، آئینہ جاں کی طرح
پھر کہاں احمریں ہونٹوں پہ دعاؤں کے دئیے
پھر کہاں شبنمی چہروں پہ رفاقت کی روا !
صندلیں پیروں سے مستانہ روی روٹھ گئی
مرمریں ہاتھوں پہ جل بجھ گیا انگارِ حنا
دل نشین آنکھوں میں فرقت زدہ کاجل رویا
شاخِ بازو کے لیے زلف کا بادل رویا
مثلِ پیراہن گل ، پھر سے بدن چاک ہوئے
جیسے اپنوں کی کمانوں میں ہوں اغیار کے تیر
اس سے پہلے بھی ہوا چاند محبت کا دو نیم
نوک دشنہ سے کھنچی تھی میری دھرتی پہ لکیر
ایسا نہیں ، ایسا نہیں ہونے دینا !
میرے سوختہ جانو ، میرے پیارے لوگو !
اب کہ گر زلزلے آئے تو قیامت ہو گی
میرے دلگیر ، میرے درد کے مارے لوگو
کسی غاصب کسی ظالم کسی قاتل کے لیے
خود کو تقسیم نہ کرنا میرے پیارے لوگو
نہیں ، ایسا نہیں ہونے دینا
نہیں ایسا نہیں ہونے دینا
ایسا نہیں ہونے دینا
کُتے از فیض احمد فیض
کہ بخشا گیا جن کو ذوقِ گدائی
زمانے کی پھٹکار سرمایہ اُن کا
جہاں بھر کی دھتکار ، ان کی کمائی
نہ آرام شب کو، نہ راحت سویرے
غلاظت میں گھر، نالیوں میں بسیرے
جو بِگڑیں تو اک دوسرے سے لڑا دو
ذرا ایک روٹی کا ٹکڑا دکھا دو
یہ ہر ایک کی ٹھوکریں کھانے والے
یہ فاقوں سے اکتا کے مر جانے والے
یہ مظلوم مخلوق گر سر اٹھائے
تو انسان سب سرکشی بھول جائے
یہ چاہیں تو دنیا کو اپنا بنا لیں
یہ آقاؤں کی ہڈیاں تک چبا لیں
کوئی ان کو احساسِ ذلت دلا دے
کوئی ان کی سوئی ہوئی دم ہلا دے
آخر ہم کب تلک غریب رہیں؟

جانے کب ہونگے کم
اس دنیا کے غم
جینے والوں پہ سدا
بے جرم و خطا
ہوتےربےہیں ستم
جانے کب ہونگے کم
اس دنیا کے غم
کیا جس نے گلہ ملی اور سزا
کئی بار ہو ا یہاں خونِ وفاء
بس یہی ہے سلا
دل والوں نے دیا
یہاں دار پہ دم
جانے کب ہونگے کم
اس دنیا کے غم
کوئی آس نہیں احساس نہیں
دریا بھی ملا مجھے پیاس نہیں
اک ہم ہی نہیں
جسے دیکھوں یہاں
وہی آنکھ ہے نم
جانے کب ہونگے کم اس دنیا کے غم