
رات کیوں ہو گئی

میرے شہروں کو کس کی نظر لگ گئی
میری گلیوں کی رونق کہاں کھو گئی
روشنی بجھ گئی‘ آگہی سو گئی
ہم تو نکلے تھے ہاتھوں میں سورج لیے
رات کیوں ہو گئی
رات کیوں ہو گئی
طالبانِ سحر
ہم سے کیوں روشنی نے یہ پردہ کیا
کیوں اندھیروں نے رستوں پہ سایہ کیا
آؤ سوچیں ذرا
ہم بھی سوچیں ذرا تم بھی سوچو ذرا
پرچمِ روشنی کس طرح پھٹ گیا؟
کون سا موڑ ہم سے غلط کٹ گیا؟
پھول رت میں خزاں
کس طرح چھا گئی؟
بیج کیا بو گئی؟
ہم تو نکلے تھے ہاتھوں میں سورج لیے
رات کیوں ہو گئی؟؟
خدا کرے میری ارض پاک پر اترے

خدا کرے میری ارض پاک پر اترے
وہ فصلِ گل جسے اندیشہء زوال نہ ہو
یہاں جو پھول کھلے وہ کِھلا رہے برسوں
یہاں خزاں کو گزرنے کی بھی مجال نہ ہو
یہاں جو سبزہ اُگے وہ ہمیشہ سبز رہے
اور ایسا سبز کہ جس کی کوئی مثال نہ ہو
گھنی گھٹائیں یہاں ایسی بارشیں برسائیں
کہ پتھروں کو بھی روئیدگی محال نہ ہو
خدا کرے نہ کبھی خم سرِ وقارِ وطن
اور اس کے حسن کو تشویش ماہ و سال نہ ہو
ہر ایک فرد ہو تہذیب و فن کا اوجِ کمال
کوئی ملول نہ ہو کوئی خستہ حال نہ ہو
خدا کرے کہ میرے اک بھی ہم وطن کے لیے
حیات جرم نہ ہو زندگی وبال نہ ہو
احمد ندیم قاسمی
یہ وزیرانِ کرام
کوئی ممنونِ فرنگی، کوئی ڈالر کا غلام
دھڑکنیں محکوم ان کی لب پہ آزادی کا نام
ان کو کیا معلوم کس عالم میں رہتے ہیں عوام
یہ وزیرانِ کرام
ان کو فرصت ہے بہت اونچے امیروں کے لیے
ان کے ٹیلیفون قائم ہیں سفیروں کے لیے
وقت ان کے پاس کب ہے ہم فقیروں کے لیے
چھو نہیں سکتے ہم ان کا اونچا مقام
یہ وزیرانِ کرام
صبح چائے ہے یہاں تو شام کھانا ہے وہاں
کیوں نہ مغرور چلتی ہے میاں ان کی دکاں
جب یہ چاہیں ریڈیو پہ جھاڑسکتے ہیں بیاں
ہم ہیں پیدل، کار پہ یہ، کس طرح ہوں ہم کلام
یہ وزیرانِ کرام
قوم کی خاطر اسمبلی میں یہ مر بھی جاتے ہیں
قوت بازو سے اپنی بات منواتے بھی ہیں
گالیاں دیتے بھی ہیں اور گالیاں کھاتے بھی ہیں
یہ وطن کی آبروں ہیں کیجیے ان کو سلام
یہ وزیرانِ کرام
ان کی محبوبہ وزارت داشتائیں کرسیاں
جان جاتی ہے تو جائے پر نہ جائیں کرسیاں
دیکھئے یہ کب تلک یوں ہی چلائیں کرسیاں
عارضی ان کی حکومت عارضی ان کا قیام
یہ وزیرانِ کرام
حبیب جالب
ہمارے لیڈر
زمانے بھر کے لٹیرے ہمارے لیڈر ہیں
جبھی تو سامنے اغیار کے یہ گیڈر ہیں
قصور ان کا نہیں ، یہ قصور اپنا ہے
ہمارے ووٹوں کے انبار سے یہ نڈر ہیں
...یہ سب بکے ہووے غدّار اس وطن کے ہیں
اپنے آقاؤں کے ہر حکم یہ.....یہ چلتے ہیں
انہیں پتہ ہی نہیں ، شرم کس کو کہتے ہیں
یہ سب یزید کے .....اہل و عیال لگتے ہیں
یہ دھن کے پجاری ........ سبھی لٹیرے ہیں
ہمارے خون سے روشن یہ مکروہ چہرے ہیں
انہیں ادراک تیرے .......انقلاب وقت کا نہیں
کے انکی آنکھوں پہ اب تک سیاہ پردے ہیں
ذرا جو ہوش سے دیکھو کے کون ہے دشمن
یہ دیکھو کون ہے ظلمت کے آسماں پہ مگن
ہر اک ادارہ مجھے لوٹ کا...... بازار لگے
مگر یہ بجلی کا دفتر ہے سب سے شعلہ فگن
اس ارض پاک کے بچے ہمارے رہبر ہیں
انہی کے دم سے ....ہماری امیدیں نیر ہیں
انہی کے واسطے گلشن میں پھول عنبر ہیں
یہی ہمارے وطن کے ......عظیم ممبر ہیں
سنو اے ارض وطن ہم بھی تیرے بچے ہیں
ذرا سی دیر ہے، لیکن عمل میں سچے ہیں
ہماری قوم میں کمزوریاں بہت ہیں مگر
اگر ہم جاگ اٹھیں ! تو غضب جھپٹتے ہیں
میں شرمندہ ہوں
میں شرمندہ ہوں اپنے آپ سے، کے میں اس قابل نہیں کے اپنی قوم کے لئے کچھ کر سکوں
لیکن کم سے کم لکھ تو سکتا ہوں؟
اس قوم کو مسلسل لوٹا جا رہا ہے، اور قوم ہے کے لٹے جا رہی ہے، پتہ نہیں کس مٹی سے بنایا تھا ہم کو خدا نے؟
...بجلی کے محکمہ نے مسلسل لوٹ مار کا بازار گرم کر رکھا ہے، لیکن ہم ہیں کے کسی طرح بھی اس کو لگام نہیں ڈالتے.
جب حکومت خود اس لوٹ مار میں ملوث ہو گی تو کیا ہو گا.... یہی کے عوام خود فیصلہ کریں کے کیا کرنا ہے... اور
وہ وقت اب کب آے گا جب عوام یہ فیصلہ کرے گی.... خدا کے لئے... تم لوگ جو کچھ کماتے ہو وہ آدھے سے زیادہ تو اس
بجلی کے محکمہ کو چلا جاتا ہے تو پھر تماہرے بچوں کا مستقبل کیا ہے؟
بجلی بھی نہ ہو، اور بل ہے کے اتنا ہی چلا آتا ہے جیسے چوبیس گھنٹے ائر کنڈیشن چلا رہے تھے... خدا کے لئے
یہ سب کمینگی کی انتہاء کو پہونچ چکے ہیں.... اب ہمیں کیا کرنا ہے....میں بتاتا ہوں......بس
تھوڑی سی ہمّت .... صرف ایک دن کے لئے.... کسی ہرتال کی ضرورت نہیں، کسی جلوس کی ضرورت نہیں...کسی
احتجاج کی ضرورت نہیں.... صرف اتنا کیجیے کے اپنے اپنے میٹر نکالئے اور سامنے گھر کے میداں میں میں سب رکھ دیں اور ٹی وی چینل کو فون کر دیں .....صرف
ایک دن کے اس عمل سے آپ خود دیکھیں گے کے، بجلی والے آپ کے پروں میں پڑے ہوں گے.... اور پھر
آپ ان سے اپنے ریٹ پے بجلی لیجیے گا.... اگر ایسا نہ ہو تو آپ مجھے بیچ چوراہے پہ گولی مار دیجیے گا....... یقین کیجیے یہ ظلم اس لئے ہے کے ہم خاموش ہیں
کسی لیڈر نے آواز اس انداز سے نہیں اٹھائی کے مسلہ ھل ہو.... یہ سب سیاست کے لئے ہمیں اور آپ کو استمعال کر رہے ہیں....
ہر آدمی اپنے اپنے علاقے میں گروپ بناہے اور میٹر نکال کر پھینکے..... نہ ہو گا میٹر نہ
آے گا بل....
اور اگر پھر بھی بل آے بجلی کا پہ بل ادا کرنے کا کوئی قانونی جواز نہیں......بس سب سے پہلا کام لوگوں کو متحرک کریئے
یہ کوئی غیر قانونی کام نہیں..... ہمارا حق ہے، کے بجلی ہم مناسب داموں پہ خریدیں جیسے ہم دوسری چیزیں خریدتتے ہیں.
ہماری مرضی
ہمیں مہنگی بجلی نہیں چاہیئے بس........اتنا ہی کافی ہے...اور
ویسے بھی بجلی ہوتی کہاں ہے.....جب بل آتا ہے تو پتہ چلتا ہے کے اچھا ہم بجلی بھی استمعال کرتے ہیں
یہ کام شروع ہونا چاہیئے فلیٹ سیسٹم سے وہاں سے یہ کام آسانی سے شروع ہو سکتا ہے..... وہاں یونین ہوتیں ہیں، وہاں آسانی سے لوگ یہ کام کر سکتے ہیں...اور ہاں ٹی وی چینلس کو ضرور فون کرا جائے تا کے میڈیا کوویرج ملے... اور دنیا کو پتہ چلے......صرف ایک دن کے لئے ہمّت کرنے کی ضرورت ہے.....
ہم تم اس شہر کے باسی ہیں



جن کے گھر ہنستے بستے ہوں
…جو سکھ کی سانس لیتے ہوں
…وہاں ہر دن خوشی کا ہوتا ہے
…ہر رات دیوالی منتی ہے
…جو سکھ کی سانس لیتے ہوں
…وہاں ہر دن خوشی کا ہوتا ہے
…ہر رات دیوالی منتی ہے
…ہم تم اس شہر کےباسی ہیں
…جہاں آنگن سونے ملتے ہیں
…جہاں ہر ماں بین کرتی ہے
… ہر دن جنازے اٹھتے ہیں
کیوں نام نصب پر لڑتے ہو…؟
کیا مسلمان ہونا پہچان نہیں…؟
تم کس بقاء کی جنگ لڑتے ہو..؟
گر کوئ رہا باقی نہیں…؟
…میرے رب نے تو ایک پہچان تھی دی
…کہا ایک نبی (ص) کی امت ہو
پھر امت نے تفریق کیوں کی…؟
کیا ذات مزہب سے بڑھ کر تھی…؟
!…بس بہت ہوا اب بس کرو
…اس جنگ سے کچھ حاصل نہیں
…یہ خون کی ہولی بند کرو
..بہت دیر نہ ہو جائے کہیں
By Tooba Hatif
نہیں ایسا نہیں ہونے دینا-احمد فراز
اب میرے دوسرے بازو پہ وہ شمشیر ہے جو !
اس سے پہلے بھی میرا نصف بدن کاٹ چکی ہے
اسی بندوق کی نالی ہے میری سمت کہ جو !
اس سے پہلے بھی میری شہہ رگ کا لہو چاٹ چکی ہے
پھر وہی آگ در آئی ہے میری گلیوں میں !
پھر میرے شہر میں بارود کی بو پھیلی ہے
پھر سے تو کون ، میں کون ہوں ؟ آپس میں سوال
پھر وہی سوچ میان و من تو پھیلی ہے
میرے بستی سے پرے بھی میرے دشمن ہوں گے
پر یہاں کب کسی اغیار کا لشکر اترا
آشنا ہاتھ ہی اکثر میری جانب لپکے !
میرے سینے میں صدا اپنا ہی خنجر اترا
پھر وہی خوف کی دیوار، تذبذب کی فضاء
پھر ہوئیں عام وہی اہل ریا کی باتیں
نعرہ حب وطن مال تجارت کی طرح
جنسِ ارزاں کی طرح خدا کی باتیں
اس سے پہلے بھی تو ایسی ہی گھڑی آئی تھی
صبح وحژت کی طرح ، شامِ غریباں کی طرح
اس سے پہلے بھی تو پیمان وفا ٹوٹے تھے
شیشہء دل کی طرح ، آئینہ جاں کی طرح
پھر کہاں احمریں ہونٹوں پہ دعاؤں کے دئیے
پھر کہاں شبنمی چہروں پہ رفاقت کی روا !
صندلیں پیروں سے مستانہ روی روٹھ گئی
مرمریں ہاتھوں پہ جل بجھ گیا انگارِ حنا
دل نشین آنکھوں میں فرقت زدہ کاجل رویا
شاخِ بازو کے لیے زلف کا بادل رویا
مثلِ پیراہن گل ، پھر سے بدن چاک ہوئے
جیسے اپنوں کی کمانوں میں ہوں اغیار کے تیر
اس سے پہلے بھی ہوا چاند محبت کا دو نیم
نوک دشنہ سے کھنچی تھی میری دھرتی پہ لکیر
ایسا نہیں ، ایسا نہیں ہونے دینا !
میرے سوختہ جانو ، میرے پیارے لوگو !
اب کہ گر زلزلے آئے تو قیامت ہو گی
میرے دلگیر ، میرے درد کے مارے لوگو
کسی غاصب کسی ظالم کسی قاتل کے لیے
خود کو تقسیم نہ کرنا میرے پیارے لوگو
نہیں ، ایسا نہیں ہونے دینا
نہیں ایسا نہیں ہونے دینا
ایسا نہیں ہونے دینا
کُتے از فیض احمد فیض
یہ گلیوں کے آوارہ بےکار کُتے
کہ بخشا گیا جن کو ذوقِ گدائی
زمانے کی پھٹکار سرمایہ اُن کا
جہاں بھر کی دھتکار ، ان کی کمائی
نہ آرام شب کو، نہ راحت سویرے
غلاظت میں گھر، نالیوں میں بسیرے
جو بِگڑیں تو اک دوسرے سے لڑا دو
ذرا ایک روٹی کا ٹکڑا دکھا دو
یہ ہر ایک کی ٹھوکریں کھانے والے
یہ فاقوں سے اکتا کے مر جانے والے
یہ مظلوم مخلوق گر سر اٹھائے
تو انسان سب سرکشی بھول جائے
یہ چاہیں تو دنیا کو اپنا بنا لیں
یہ آقاؤں کی ہڈیاں تک چبا لیں
کوئی ان کو احساسِ ذلت دلا دے
کوئی ان کی سوئی ہوئی دم ہلا دے
کہ بخشا گیا جن کو ذوقِ گدائی
زمانے کی پھٹکار سرمایہ اُن کا
جہاں بھر کی دھتکار ، ان کی کمائی
نہ آرام شب کو، نہ راحت سویرے
غلاظت میں گھر، نالیوں میں بسیرے
جو بِگڑیں تو اک دوسرے سے لڑا دو
ذرا ایک روٹی کا ٹکڑا دکھا دو
یہ ہر ایک کی ٹھوکریں کھانے والے
یہ فاقوں سے اکتا کے مر جانے والے
یہ مظلوم مخلوق گر سر اٹھائے
تو انسان سب سرکشی بھول جائے
یہ چاہیں تو دنیا کو اپنا بنا لیں
یہ آقاؤں کی ہڈیاں تک چبا لیں
کوئی ان کو احساسِ ذلت دلا دے
کوئی ان کی سوئی ہوئی دم ہلا دے
آخر ہم کب تلک غریب رہیں؟

آخر ہم کب تلک غریب رہیں؟
------------------------------
آس دامن میں باندھ کر خواہش
جس سفر پہ بزرگ تھے نکلے
عمر تک رات کا سفر کاٹا
پھر بھی لیکن صبح نہیں آئی
آؤ سب مل کر ہمسفر سارے
خوابِ غفلت سے جاگ کر سوچیں
میر جعفر کو، میر صادق کو
مسندِ میر کِس نے دے چھوڑی؟
اپنے قائد کے قاتلوں پیچھے
آخر ہم کب تلک نماز پڑھیں؟
ڈھونگیوں کی دعاوں پہ کب تک
ہم فقط" آمین" کا یہ ورد کریں
یہ تو ناو ڈبو کے چھوڑیں گے
آؤ خود ہی سامانِ زیست کریں
تکیہ کب تک مہا جنوں پہ کریں
آخر ہم کب تلک غریب رہیں؟
کب تلک آنسووں کو بو کے ہم
فصلِ امید میں خوشی دیکھیں
آؤ اِس کارواں کا رخ موڑیں
ڈھونڈ لائیں کہیں سے صبح کو
ایسی ہی باغیانہ سوچوں سے
خوشبوئے اِنقلاب آتی ھے
کیوں روایت کو تھام کر بیٹھیں؟
فصلِ خواہش کے انتظار میں ہم
چل کے منزل کبھی نہیں آتی
خوش گمانی سے جھاڑ کر دامن
منزلوں کو سفر بھی لازم ھے
مل کے جب سب چلیں گے جگنو تو
راہ روشن بھی ہو ہی جائے گی
رات آخر تو سو ہی جائے گی
صبح اک دن تو ہو ہی جائے گی
ஜ۩۞۩ஜ اِبنِ اُمید ஜ۩۞۩ஜ
کیسے بیاں کروں میں وہ ظلم کا منظر
یہ کون شور کر رہا ہے..... کوئی پاگل ہے

ایک تجزیہ کے مطابق اور کئی بار فیصل عابدی ٹالک شوز میں یہ بات کہہ چکے ہیں، کے حکومت اب تک دس ہزار دہشت گردوں کوہ گرفتار کر چکی ہے لیکن عدالتیں ان کو با عزت بری کر دیتی ہیں!!!!!.
اب مان لو کے بشمول کراچی پورا پاکستان امریکا کی سازشوں میں جکڑا ہوا ہے، اور جب تک ہم سوتے رہے گیں، یہ بدبخت یہودیوں کے غلام ہم پہ حکومت کرتے رہے گیں......یہ مسلہ پ پی پی پی ، ایم کیو ایم، یہ مسلم لیگ کا نہیں، ضرورت ہے ان سب چہروں سے چھٹکارا ......... اس لئے کے اب مسلہ بقا کا ہے،
لیکن ہمارا مسلہ یہ ہے کے، جب تک کوئی چیز مکمّل طور پہ ہم سے چھین نا لی جائے، ہم ہوش میں نہیں آتے، یہی وجہ ہے ارباب اقتدار پوری قوم کو لوٹ رہے ہیں، اور لوٹتے رہیں گیں.... ہمارے پاس اصل میں وقت نہیں ہے، ہم بہت مصروف ہیں، ہمارے خلاف ہونے والی سازشوں کا مقابلہ بھی شائد ناٹو فورسز ہی کریں گی..... سوتے رہو..... جاگنا نہیں..... سوتے رہو جاگنا نہیں...........یار بہت نیند آ رہی ہے، یہ کون شور کر رہا ہے..... کوئی پاگل ہے
By: Moosa Raza
عزم عالیشان ، عزم پاکستان
میرا عزم انسانیت
میرا عزم ایمانداری
میرا عزم برداشت
ہمارا ایک چھوٹا سا عزم بھی
ایک بڑی تبدیلی لا سکتا ہے
آئیں کچھ اچھا کرنے کا عزم کریں
اور خود سے تبدیلی کا آغاز کریں
عزم عالیشان ، عزم پاکستان
تم ہی نے حق یہ دیا ہے جو ظلم جاری ہے
تم ہی نے حق یہ دیا ہے جو ظلم جاری ہے
تمھارے ووٹوں سے ظلمت کی آبیاری ہے
یہ ووٹ ڈالا جو تم نے یزیدیوں کو سنو
تمہاری بیت تھی ، جو دست یزید بھاری ہے
اکھاڑ ڈالو ظلمت کے ان ایوانوں کو
نکال پھینکو ان نجس نسب شیطانوں کو
یہ حکمران ہے سارے یہودیوں کے غلام
جلا کے رکھ دو ان مغرب زدہ غلاموں کو
اگر جو سوتے رہے تو سزا یہی ہو گی
یہ قوم عالم انساں میں مر چکی ہو گی
تیرے اجداد کی محنت ، وہ خون کے دریا
تیری قربانیاں قدموں تلے پڑی ہوں گی

اے وطن تو نے پکارا تو لہو کھول اٹھا
تیرے بیٹے تیرے جانباز چلے آتے ہیں
ہم ہیں جو ریشم و کمخواب سے نازک تر ہیں
ہم ہیں جوآہن و فولاد سے ٹکراتے ہیں
ہم ہیں جوغیرت و ناموس پہ کٹ سکتے ہیں
ہم ہیں جواپنی شرافت کی قسم کھاتے ہیں
ہم نے روندا ہے بیابانوں کو صحراوں کو
ہم جو بڑھتے ہیں تو بڑھتے ہی چلے جاتےہیں
ہم سے واقف ہے یہ دریا یہ سمندر یہ پہاڑ
ہم نئےرنگ سے تاریخ کو دہراتے ہیں
اقبال تیرے دیس کا کیا حال سناؤں

اقبال تیرے دیس کا کیا حال سناؤں
دہقاں تو مرکھپ گیا اب کس کو جگاؤں
ملتا ہے کہاں خوشہء گندم کہ جلاؤں
شاہیں کا ہے گنبدِ شاہی پہ بسیرا
کنجشکِ فرومایہ کو اب کس سے لڑاؤں
اقبال تیرے دیس کا کیا حال سناؤں
ہر داڑھی میں تنکا ہے، ہر ایک آنکھ میں شہتیر
مومن کی نگاہوں سے بدلتی نہیں تقدیر ؟
توحید کی تلوار سے خالی ہیں نیامیں
اب ذوق یقیں سے نہیں کٹتی کوئی زنجیر
اقبال تیرے دیس کا کیا حال سناؤں
شاہیں کا جہاں آج کرگس کا جہاں ہے
ملتی ہوئی ملا سے، مجاہد کی اذاں ہے ؟
مانا کہ ستاروں سے آگے ہیں جہاں اور
شاہیں میں مگر طاقت پرواز کہاں ہے
اقبال تیرے دیس کا کیا حال سناؤں
مرمر کی سلوں سے کوئی بے زار نہیں ہے
رہنے کو حرم میں کوئی تیار نہیں ہے
کہنے کو ہر اک شخص مسلمان ہے ، لیکن
دیکھو تو کہیں نام کا کردار نہیں ہے
اقبال تیری دیس کا کیا حال سناؤں
بیباکی و حق گوئی سے گھبراتا ہے مومن
مکاری و روباہی پہ اتراتا ہے مومن
جس رزق سے پرواز میں کوتاہی کا ڈر ہو
وہ رزق بڑے شوق سے اب کھاتا ہے مومن
اقبال تیرے دیس کا کیا حال سناؤں
پیدا کبھی ہوتی تھی سحر جس کی اذاں سے
اس بندہء مومن کو اب لاؤں کہاں سے
وہ سجدہ زمیں جس سے لرز جاتی تھی یارو
اک بار تھا ہم چھُٹ گئے اس بارِ گراں سے
اقبال تیرے دیس کا کیا حال سناؤں
جھگڑے ہیں یہاں صوبوں کے ذاتوں کے نصب کے
اگتے ہیں تہہ سایہء گل خار غضب کے
یہ دیس ہے سب کا مگر اس کا نہیں کوئی
اِس کے گلِ خستہ پہ تو اب دانت ہیں سب کے
اقبال تیرے دیس کا کیا حال سناؤں
محمودوں کی صف، آج ایازوں سے پرے ہے
جمہور سے، سلطانی جمہور ڈرے ہیں
تھامے ہوئے دامن ہے یہاں پر جو خودی کا
مرمر کے جیے ہے کبھی جی جی کے مرے ہے
اقبال تیرے دیس کا کیا حال سناؤں
دیکھو تو ذرا محلوں کے پردوں کو اٹھا کر
شمشیر وسناں رکھی ہیں طاقوں پہ سجا کر
آتے ہیں نظر مسندِ شاہی پہ رنگیلے
تقدیرِ امم سو گئی طاؤس پہ آ کر
اقبال تیرے دیس کا کیا حال سناؤں
مکاری و عیاری و غداری و ہیجان
اب بنتا ہے ان چار عناصر سے مسلمان
قاری اسے کہنا تو بڑی بات ہے یارو
اس نے تو کبھی کھول کے دیکھا نہیں قرآن
اقبال تیرے دیس کا کیا حال سناؤں
کردار کا، گفتار کا، اعمال کا، مومن
قائل نہیں ایسے کسی جنجال کا مومن
سرحد کا ہے مومن، کوئی بنگال کا مومن
ڈھونڈے سے بھی ملتا نہیں، قرآن کا مومن
اقبال تیرے دیس کا کیا حال سناؤں
امیر الاسلام ہاشمی
حسین کھوسو کیوں مرگیا؟

اس وقت ملک کے طول و عرض میں سیلاب زدگان کو وطن کارڈ تقسیم کیے جا رہے ہیں۔لوگ اتنے بے صبرے ہیں کہ بار بار لائن توڑ کر دروازے سے اندر گھسنے کی کوشش کرتے ہیں۔پولیس کو مجبوراً لاٹھی چارج کرنا پڑتا ہے۔ کئی لوگ زخمی ہوتے ہیں۔بھگدڑ میں کچلے جاتے ہیں۔ لیکن اگلے روز پھر مزید بے صبرے پن کے ساتھ نادرا مراکز کے گیٹ پر جمع ہوجاتے ہیں۔ جنہیں اتنے کشٹ کے بعد وطن کارڈ ہاتھ آجاتا ہے ۔ان کے لیے مشکلات کا دوسرا مرحلہ شروع ہوجاتا ہے۔ یہ کارڈ وصولی کے اڑتالیس گھنٹے بعد کارآمد (ایکٹی ویٹ)ہوتا ہے۔اس کے ذریعے پیسے صرف بینک کے اے ٹی ایم ( آٹومیٹک ٹلر مشین) سے ہی نکلوائے جاسکتے ہیں۔ یہ اے ٹی ایم صرف بڑے شہروں اور قصبات کی بینک شاخوں میں نصب ہیں۔انہیں استعمال کرنے کے لیے بنیادی خواندگی اور حاظر دماغی کی ضرورت ہے۔ تاکہ تیزی سے بدلتی سکرین پر دیے گئے متعدد آپشنز پر درست انگلی پڑے۔ورنہ نئے سرے سے پوری مشق دہرانی پڑتی ہے۔ وہ لاکھوں دیہاتی جن کا گھربار، مال مویشی سیلاب میں ختم ہوچکے ہیں۔ جو صرف کیش کی صورت میں لین دین کے عادی ہیں۔جن میں سے بیشتر نے کبھی کسی بینک میں اکاؤنٹ نہیں کھلوایا۔کبھی چیک بک استعمال نہیں کی۔اپنے گاؤں سے سو سو کلومیٹر دور تک اے ٹی ایم مشین نہیں دیکھی۔ان سے توقع کی جارہی ہے کہ وہ اپنے گاؤں سے نکل کر بس میں بیٹھ کر کسی ایسے قصبے تک پہنچیں جہاں اے ٹی ایم مشین ہو۔وہاں طویل لائن میں لگیں اور الیکٹرونک بینکنگ کے عادی کسی کھاتے دار کی طرح اے ٹی ایم مشین آپریٹ کرکے مطلوبہ رقم حاصل کرلیں۔اور وہ بھی ایسے حالات میں جب پیچھے سینکڑوں دیگر بے صبروں کا ہجوم ہو۔
جو متاثرین یہ مراحل طے کرلیتے ہیں کیا وہ رقم حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔شائد نہیں ۔۔۔ زیادہ تر اے ٹی ایم مشینیں یا تو خراب ہیں یا پھر ان میں کیش نہیں ہوتا۔بینک والے کہتے ہیں کہ ان مشینوں کو بے نظیر انکم سپورٹ کریڈٹ کارڈز استعمال کرنے والوں نے خراب کیا ہے۔ کئی مقامات پر یہ بھی ہوا ہے کہ غلط بٹن بار بار دبانے کے سبب اے ٹی ایم نے کارڈ ضبط کرلیا اور جس کا کارڈ ضبط ہوا وہ اپنے جذبات ضبط نہ کرسکا اور کارڈ واپس لینے کے لیے اس نے پتلا سریا، پیچ کس یا لکڑی اے ٹی ایم کے خانے میں گھسا دی یا پتھر مار کر سکرین ہی توڑ دی اور بکتا جھکتا یا روتا ہوا چلا گیا۔
چنانچہ اب ایک نیا بزنس شروع ہوگیا ہے۔الیکٹرونک بینکنگ جاننے والا کوئی شخص متاثرین سے بیس ہزار روپے کا کارڈ پندرہ سے اٹھارہ ہزار روپے میں خرید لیتا ہے اور متاثر خدا کا شکر ادا کرتا ہے کہ کم ازکم اسے پندرہ ہزار تو ملے۔ حکومت کہتی ہے کہ اس نے کیش بذریعہ اے ٹی ایم کی پالیسی اس لیے بنائی ہے تاکہ رقم کا کنٹرول متاثر کے ہاتھ میں رہے اور حکومتی اداروں کو بھی پتہ چلتا رہے کہ رقم مستحق تک ہی پہنچ رہی ہے۔
تو پھر دادو کی تحصیل میہڑ کے گوٹھ امبر کے حسین کھوسو نے خودکشی کیوں کرلی؟
نثار میں تری گلیوں پے اے وطن ، کہ جہاں
چلی ہے رسم ، کہ کوئی نہ سر اٹھا کے چلے
جو لے کے نکلے ’وطن کارڈ‘ کوئی اہلِ وطن
نظر چرا کے چلے، جسم و جاں بچا کے چلے
http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2010/10/101017_baat_se_baat.shtml
بولو بولو۔۔۔۔۔۔ جواب مانگتی ہے

آج کچھ لوگ گھر نہیں آئے
کھو گئے ہیں کہاں تلاش کرو
دامن چاک کے ستاروں کو
کھا گیا آسماں تلاش کرو
ڈھونڈ کے لاؤ یوسفوں کے تیس
کارواں کارواں تلاش کرو
ناتواں زیست کے سہاروں کو
یہ جہاں وہ جہاں تلاش کرو
گیس آنسو رلا رہی ہے غضب
چار جانب پولس کا ڈیرا ہے
گولیوں کی زبان چلتی ہے
شہر میں موت کا بسیرا ہے
کون دیکھے تڑپنے والوں میں
کون تیرا ہے کون میرا ہے
آج پھر اپنے نونہالوں کو
صدر میں وحشیوں نے گھیرا ہے
حکم تھا ناروا گلہ نہ کرو
خون بہنے لگے جو راہوں میں
یعنی سرکار کو خفا نہ کرو
پی گئے بجلیاں نگاہوں میں
آج دیکھو نیاز مندوں کو
خون ناحق کے داد خواہوں میں
سرنگوں اور خموش صف بستہ
کتنے لاشے لیے ہیں باہوں میں
آستینوں کے داغ دھو لو گے
قاتلوں آسماں تو دیکھتا ہے
چین کی نیند جا کے سو لو گے
تم کو سارا جہاں تو دیکھتا ہے
قسمت خلق کے خداوند
تم سے خلقت حساب مانگتی ہے
روح فرعونیت کے فرزندو
بولو بولو۔۔۔۔۔۔ جواب مانگتی ہے
نصیحت روز بکتی ہے عقیدت روز بکتی ہے

تمھارے شہر میں لوگو محبت روز بکتی ہے،
امیرِ شہر کے در کا ابھی محتاج ہے مذہب،
ابھی مُلا کے فتووں میں شریعت روز بکتی ہے،
ہمارے خون کو بھی وہ کسی دن بیچ ڈالے گا،
خریداروں کے جھرمٹ میں عدالت روز بکتی ہے،
نجانے لطف کیا ملتا ہے ان کو روز بکنے میں،
طوائف کی طرح لوگو قیادت روز بکتی ہے،
کبھی مسجد کے منبر پر کبھی حجرے میں چھپ چھپ کر،
میرے واعظ کے لہجے میں قیامت روز بکتی ہے،
بڑی لاچار ہیں طاہر جبینیں ان غریبوں کی،
کہ مجبوری کی منڈی میں عبادت روز بکتی ہے۔
میری پہچان
میری پہچان نمازیں ہیں نہ تکبیریں ہیں
آج کل میرا تعارف میری تقصیریں ہیں
آنکھ کھُلتے ہی اُجڑ جاتے ہیں منظر سارے
خواب لاکھوں ہیں، مگر ایک سی تعبیریں ہیں
پڑھنے والو! کوئی مفہوم تو ہو گا ان کا
صفحۂ ابر پہ کوندوں کی جو تحریریں ہیں
ہم پذیرائی پہ ماموُر ہیں، اے خواجہِ شہ
ہاتھ میں پھوُل ہیں اور پاؤں میں زنجیریں ہیں
سب خد و خال خدا کے ہیں مصّور جیسے
یہ جو انسان نظر آتے ہیں، تصویریں ہیں
شہدا کا اپنی ماؤں کو پیغام
عظیم ماں تیرے بیٹے کی لاش آئی ہے
خدا گواہ ہے شہادت کی موت پائی ہے
عظیم ماں تیرا نور نظر شہید ہوا
خدا کی راہ میں تیرا پسر شہید ہوا
خدا کا شکر ہے میدان سے منہ نہیں موڑا
دہن پہ ،سینے پہ، بازو پہ زخم کھائے ہیں
کہ شیر لوٹ رہا ہے کچھار کی جانب
ہدو کا خون پئیے ھڈیاں چبائے ہوئے
تیرا شہید لہو میں نہا کہ آیا ہے
قدم قدم پہ گلستاں کھلا کہ آیا ہے
ہزار آندھیاں آئیں، وہ بجھ نہیں سکتیں
لہو سے اپنی جو شمعیں جلا کہ آیا ہے
لکھا تھا خالدوطارق نے اپنے خون سے جسے
اسی کتاب کے صفحے بڑھا کہ آیا ہے
رضا ئےحق سے تیرا دل ہے کس قدر آباد
عظیم ماں تجھے سب مبارک ہو
جو دیکھتا ہے ادب سے وہ سر جھکاتا ہے
تیرےشہید کا شاہی جلوس آتا ہے
تیرےشہید کا شاہی جلوس آتا ہے
خدا گواہ ہے شہادت کی موت پائی ہے
عظیم ماں تیرا نور نظر شہید ہوا
خدا کی راہ میں تیرا پسر شہید ہوا
خدا کا شکر ہے میدان سے منہ نہیں موڑا
دہن پہ ،سینے پہ، بازو پہ زخم کھائے ہیں
کہ شیر لوٹ رہا ہے کچھار کی جانب
ہدو کا خون پئیے ھڈیاں چبائے ہوئے
تیرا شہید لہو میں نہا کہ آیا ہے
قدم قدم پہ گلستاں کھلا کہ آیا ہے
ہزار آندھیاں آئیں، وہ بجھ نہیں سکتیں
لہو سے اپنی جو شمعیں جلا کہ آیا ہے
لکھا تھا خالدوطارق نے اپنے خون سے جسے
اسی کتاب کے صفحے بڑھا کہ آیا ہے
رضا ئےحق سے تیرا دل ہے کس قدر آباد
عظیم ماں تجھے سب مبارک ہو
جو دیکھتا ہے ادب سے وہ سر جھکاتا ہے
تیرےشہید کا شاہی جلوس آتا ہے
تیرےشہید کا شاہی جلوس آتا ہے

پاکستان کو ایٹمی طاقت بنایا....امریکہ میرا جرم معاف کرنے پر تیار نہیں : ڈاکٹر قدیر
میرا جرم صرف یہ ہے کہ میں نے پاکستان کو بھوٹان اور نیپال کی صف سے نکال کر ایٹمی طاقت بنایا لیکن امریکہ میرا یہ جرم معاف کرنے کو آمادہ نہیں۔ حکومت ملک کو بحرانوں سے نکالنے میں ناکام ہو چکی ہے‘ نئی اور نوجوان قیادت ہی ملک کو ترقی اور خوشحالی کی راہ پر گامزن کر سکتی ہے۔
پرویز مشرف نے امریکہ کے حکم پر مجھے نظر بند کر کے میری عزت خاک میں ملانے کی کوشش کی‘ میں نے اپنی رہائی کیلئے حکومت سمیت کسی سے کوئی معاہدہ نہیں کیا تھا بلکہ عدالت نے انصاف کیا‘
قول ایوبی
دوستو


بھنور لپیٹ کے پاؤں، سفر میں رکھا ھے
سوائے ذات کے سب کو نظر میں رکھا ھے
غاصب کی تنی رات کو ہم چاک کریں گے
چھُپا کے زہر کا خنجر، جگر میں رکھا ھے
ہماری نسلیں وہ جھیلیں گی، ہم جو بوئیں گے
اِس ایک فکر نے مجھ کو، اثر میں رکھا ھے
جنوں کو تھام رہی ھے، ہر ایک محرومی
نشہ عجیب سا اوجھل سحر میں رکھا ھے
فرعونِ وقت کو اِک دن ڈبو کے چھوڑیں گے
قہر سا لاوہ، سکوتِ لہر میں رکھا ھے
اِبنِ اُمید

جب لوگوں کا یہ حال ہو جائے کہ
وہ برائی دیکھں اور اسے بدلنے کی کوشش نہ کریں
ظالم کو ظلم کرتا ھوا پائیں اور اس کا ھاتھ نہ پکڑیں
تو قریب ہے کہ اللہ اپنے عذاب میں سب کو لپیٹ لے
اللہ کی قسم تم پر لازم ہے کہ بھلائ کا حکم دو اور برائ سے روکو
ورنہ اللہ تم پہ ایسے لوگوں کو مسلط کر دے گا
جو تم میں سب سے بدتر ہونگےاور تمهیں سخت تکلیف دیں گے
تمھارے نیک لوگ اللہ سے دعائیں مانگیں گے وہ قبول نہ ہونگی۔
ترمزی#2178
امریکا پاکستان کی ایٹمی تنصیبات تباہ کرنا چاہتا ہے
امریکا پاکستان کی ایٹمی تنصیبات تباہ کرنا چاہتا ہے ، ہمارے پاس پکی اطلاعات ہیں (ایرانی صدر
بات تو سچ مگر بات ہے رسوائی کی۔ ہمارے حکمرانوں کو پتا ہے کہ امریکہ اسرائیل انڈیا ہمارے ایٹمی اثاثوں پر حملہ کرنا چاہتا ہے لیکن وہ اپنے منہ سے کیسے کہیں۔ کیوں کہ اُن کو تو ڈالر مل رہے ہیں۔
اٹھو چلو اور وطن سنبھالو

میرے وطن کے اداس لوگو
نہ خود کو اتنا حقیر سمجھو
کہ کوئی تم سے حساب مانگے
خواہشوں کی کتاب مانگے
نہ خود کو اتنا قلیل سمجھو
نہ خود کو اتنا حقیر سمجھو
کہ کوئی اٹھ کے کہے یہ تم سے
وفائیں اپنی ہمیں لوٹا دو
وطن کو اپنے ہمیں تھما دو
اٹھو اور اٹھ کے بتا دو انکو
کہ ہم ہیں اہل ایمان سارے
نہ ہم میں کو ئی صنم کدہ ہے
ہمارے دل میں تو ایک الٰہ ہے
میرے وطن کے اداس لوگو
جھکے سروں کو اٹھا کے دیکھو
قدم تو آگے بڑھا کے دیکھو
ہے ایک طاقت تمہارے سر پر
کرے گی سایہ جو ان سروں پر
قدم قدم پہ جو ساتھ دے گی
اگر گرے تو سنبھال لے گی
میرے وطن کے اداس لوگو
اٹھو چلو اور وطن سنبھالو
نہ خود کو اتنا حقیر سمجھو
کہ کوئی تم سے حساب مانگے
خواہشوں کی کتاب مانگے
نہ خود کو اتنا قلیل سمجھو
نہ خود کو اتنا حقیر سمجھو
کہ کوئی اٹھ کے کہے یہ تم سے
وفائیں اپنی ہمیں لوٹا دو
وطن کو اپنے ہمیں تھما دو
اٹھو اور اٹھ کے بتا دو انکو
کہ ہم ہیں اہل ایمان سارے
نہ ہم میں کو ئی صنم کدہ ہے
ہمارے دل میں تو ایک الٰہ ہے
میرے وطن کے اداس لوگو
جھکے سروں کو اٹھا کے دیکھو
قدم تو آگے بڑھا کے دیکھو
ہے ایک طاقت تمہارے سر پر
کرے گی سایہ جو ان سروں پر
قدم قدم پہ جو ساتھ دے گی
اگر گرے تو سنبھال لے گی
میرے وطن کے اداس لوگو
اٹھو چلو اور وطن سنبھالو
ممکن ہے زمانہ رُخ بدلے
زورداری صاحب کے نام
Subscribe to:
Posts (Atom)
جانے کب ہونگے کم
اس دنیا کے غم
جینے والوں پہ سدا
بے جرم و خطا
ہوتےربےہیں ستم
جانے کب ہونگے کم
اس دنیا کے غم
کیا جس نے گلہ ملی اور سزا
کئی بار ہو ا یہاں خونِ وفاء
بس یہی ہے سلا
دل والوں نے دیا
یہاں دار پہ دم
جانے کب ہونگے کم
اس دنیا کے غم
کوئی آس نہیں احساس نہیں
دریا بھی ملا مجھے پیاس نہیں
اک ہم ہی نہیں
جسے دیکھوں یہاں
وہی آنکھ ہے نم
جانے کب ہونگے کم اس دنیا کے غم